انتخابی اصلاحات اور بحران

دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں جمہوریت متنازعہ نہ ہو لیکن پاکستان کی طرح کہیں بھی تنازعات اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوتے۔ اگر پاکستان کا بالخصوص ذکر کیا جائے تو اِس کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں عام انتخابات ہمیشہ ہی سے متنازعہ رہے ہیں۔ یہاں کوئی ایک بھی عام انتخاب ایسا نہیں رہا‘ جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ وہ شفاف طریقے سے کرایا گیا اور اس میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے اس کی شفافیت پر اعتماد کا اظہار کیا ہو۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انتخابی عمل میں جتنی خامیاں پائی جاتی ہیں ان کے ہوتے ہوئے الیکشن کا شفاف انعقاد ممکن ہی نہیں۔ انتخابی عمل میں حصہ لینے والے امیدواروں سے لے کر پریزائیڈنگ افسر اور پولنگ ایجنٹس تک کام کرنے والے تمام لوگ انتخابی عمل کی خامیوں سے واقف ہیں اور ان پر دہائیوں سے اعتراضات ہوتے آ رہے ہیں لیکن ان خامیوں کو دور کرنے کیلئے آج تک کسی لائحہ عمل پر اتفاق نہیں ہو پایا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے مسلسل اعتراضات اور تنقید کے باوجود اسی نظام کے تحت انتخابات کا سلسلہ چلتا جارہا ہے۔ اس نظام کے تحت جیتنے والا فتح کا جشن منارہا ہوتا ہے تو ہارنے والا شور مچا رہا ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔ ہر حکومت اپنے دور میں انتخابی عمل میں تبدیلی لانے کے دعوے کرتی ہے اور اس حوالے سے کئی تجاویز بھی دی جاتی ہیں لیکن نہ تو ان تجاویز پر مختلف دھڑوں میں اتفاق ہوتا ہے اور نہ ہی وہ تجاویز عملی شکل میں ڈھل پاتی ہیں۔ موجودہ حکومت بھی انتخابی عمل میں تبدیلی لانے کے لئے اپنے حصے کی کوشش کررہی ہے اور اس سلسلے میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) کے استعمال سمیت کئی اور طرح کی تجاویز زیر غور ہیں لیکن حزبِ اختلاف ان تجاویز کو ماننے کو تیار نہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر بھی اعتراضات کئے جارہے ہیں اور ان کے ذریعے ہونے والی ممکنہ دھاندلی کے بارے میں بھی بات کی جارہی ہے۔ حکومت میں شامل لوگ کہیں ان اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں اور کہیں وہ حزبِ اختلاف کی بات پر کان دھرنے سے یکسر انکاری ہیں۔ اس صورتحال میں انتخابی عمل میں مثبت تبدیلیوں کی بات محض سیاسی ہلچل کا باعث ہی بن رہی ہے لیکن اس سے نتیجہ شاید کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔انتخابی عمل میں تبدیلیوں کے حوالے سے وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپنے آپ کو تنازعات سے الگ کریں جن کے رویوں اور کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات پر حکومت کو تحفظات ہیں۔ اِس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے دیگر اراکین سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور اپنے چیف الیکشن کمشنر کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کا کہیں۔ بظاہر چیف الیکشن کمشنر حکومتی اصلاحات کے مخالف ہیں۔ ای وی ایم پر دانستہ طور پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) کے حق میں مثبت مواد کو ضائع کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے فلپائن سمیت کئی ایسے ممالک کا حوالہ دیا گیا ہے جہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مدد سے کامیاب انتخابات کروائے جاتے ہیں اور یہی نکتہ انتخابی اصلاحات کا مرکزی ہے کہ آئندہ عام انتخابات صاف‘ شفاف اور منصفانہ ہوں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جس قلبی وسعت کا مظاہرہ کیا گیا ہے اُس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی جیسا کہ اگر حزب اختلاف کو حکومت کی تجویز کردہ اُنچاس اصلاحات پسند نہیں تو وہ اِن کے مقابلے اپنی وضع کردہ اصلاحات یا سفارشات لے آئیں۔ لائق توجہ ہے کہ سال دوہزارگیارہ سے مسلسل یہ بحث ہو رہی ہے کہ عام انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ کا استعمال ضروری ہے  ’ای ووٹنگ (e-voting) سمیت انتخابی اصلاحات سے متعلق جو بھی امور ہیں حکومت اور حزب اختلاف ضد اور ہٹ دھرمی کے بغیر انہیں مشاورت سے نمٹائیں اور اس کیلئے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے۔ بیان بازی سے اگر مسائل حل ہوسکتے تو پھر پاکستان میں کسی مسئلہ کا وجود ہی نہ ہوتا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر انتخابی اصلاحات کے حوالے سے مشاورت کرے اور اس سلسلے میں اپوزیشن کے جتنے بھی اعتراضات ہیں انہیں سامنے رکھ کر دیکھے کہ ان میں کتنے ایسے ہیں جنہیں تسلیم کیا جاسکتا ہے اور کتنے ایسے ہیں جن پر بات کر کے اپوزیشن کو ان سے دستبردار ہونے پر آمادہ کیا جاسکتا۔ اگر جمہوری روایات کا فروغ اور ملک میں جمہوریت کی بالادستی مطلوب ہے تو انتخابی اصلاحات سمیت جملہ آئینی ترامیم اور فیصلے پارلیمان کے اندر اور مشاورت سے ہونے چاہئیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر واحد الفاروق۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)