افغانستان: اقتصادی و سیکورٹی چیلنجز

افغانستان میں نئے عہد کا آغاز ہو چکا ہے جہاں زندگی کے ہر پہلو سے جڑی مشکلات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دارالحکومت کابل شہر کے غربا کیلئے‘ جو آبادی کے تناسب سے اکثریت میں ہیں‘ فاقوں سے بچنے کیلئے دن کے چند سو افغانی کمانا ہی زندگی کا واحد مقصد بن گیا ہے۔ لاکھوں افغان بد ترین غربت سے گزر رہے ہیں اور یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جسے قریب دو دہائیوں تک بین الاقوامی امداد کی مد میں اربوں ڈالر ملے مگر امریکہ نے افغانستان کے تقریباً 9 ارب ڈالر منجمد کر رکھے ہیں۔ یہ رقم افغانستان کے غربا کی زندگیاں تو بہتر بنا سکتا ہے تاہم امریکہ نہیں چاہتا کہ یہ پیسے طالبان کے ہاتھ لگیں۔ دارلحکومت کے دیہاڑی دار مزدور علی الصبح اپنے اوزار لئے شہر کے بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ شہر میں بڑے پیمانے پر کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا۔ بینک بند ہیں اور بیرون ملک سے آنے والی امداد بھی معطل ہے۔ افغانستان سے آمدہ اطلاعات کے مطابق لوگ اپنے گھروں کا سازوسامان بیچ رہے ہیں تاکہ وہ گزر بسر کر سکیں۔ کابل میں گھروں کے کرائے افغانستان کے دیگر شہروں کے مقابلے زیادہ ہیں جبکہ روزگار کے مواقع پہلے جیسے نہیں رہے۔ دوسری طرف طالبان طرزحکمرانی سے عوام خوفزدہ ہیں اگرچہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے اور اِس پر سختی سے عمل بھی کر رہے ہیں لیکن ایک ایسے ملک میں امن و امان برقرار رکھنا آسان نہیں جہاں قدم قدم پر خطرات ہوں۔ طالبان کیلئے امن و امان برقرار کھنے کیلئے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ گشت کرنے کے سوا چارہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ دارالحکومت کابل کے وسط میں بڑی تعداد میں طالبان جنگجو دکھائی دیتے ہیں۔ ائرپورٹ پر طالبان امریکی فوجیوں کے یونیفارم پہنے دکھائی دیتے ہیں۔ شہر بھر میں وہ روایتی لباس شلوار قمیض اور سر پر کالی پگڑی پہنے نظر آتے ہیں اور یہ سب بھاری ہتھیاروں اور رائفلز سے لیس ہیں۔ گذشتہ ہفتے کے دوران جس ایک چیز کے بارے میں سب سے زیادہ شکایات سننے کو ملیں وہ خوراک کی بڑھتی قیمتیں اور والدین کی اپنے بچوں کو کھانے فراہم کرنے کی پریشانی تھی۔ اشیا خوردو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ایسے میں لاکھوں افراد اپنے خاندانوں کو دو وقت کا کھانا فراہم کرنے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک کے اندازے کے مطابق ترانوے فیصد افراد کو کھانے کیلئے خوراک میسر نہیں۔ گذشتہ ماہ افغانستان پر طالبان کے قبضے سے قبل یہ تعداد اَسّی فیصد تھی۔ شہر بھر کی گلیوں اور چوراہوں پر لوگ ٹھیلے اور ریڑھیاں لگائے دکھائی دیتے جہاں وہ اپنے گھر کی اشیا بیچ رہے ہیں تاکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم سے خوراک خرید سکیں۔ کابل میں ایسی ریڑھیاں دیکھی جا سکتی ہیں جن پر لوگ اپنے گھر کا سامان لاد کر لا رہے تھے جن میں مہنگے قالین سے لے کر ٹی وی سیٹ اور مختلف طرح کی برتن وغیرہ تھے۔ ایک شخص کو میں نے ربڑ پلانٹ بیچتے دیکھا لیکن اس بازار میں بیچنے والے زیادہ اور خریدار کم تھے۔ استعمال شدہ اشیا کے اس بازار میں مایوسی کا راج تھا۔ ملک میں بھوک و افلاس کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے جہاں ہزاروں افراد کو دن میں ایک وقت کا کھانا ملنا بھی مشکل ہے۔ اس سب سے بڑھ کر سب سے زیادہ اہم رات کو بھوکے پیٹ سونے کی تکلیف ہے۔ ایسے ممالک جو افغانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ملک پر طالبان کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے وہ اس تمام صورتحال میں مخمصے کا شکار ہیں۔ لوگ کام کر کے پیسے کما سکیں اور اپنے لئے خوراک خرید سکے اس کے لئے طالبان کو افغانستان میں ایک قابل عمل ریاست کا نظام تشکیل دینا پڑے گا۔ اس کا متبادل شاید اس سے بھی بدتر ہو‘ جو ملک میں مزید غربت‘ بھوک و افلاس‘ مزید پناہ گزین اور مزید خوراک کی کمی کا شکار بچوں کی وجہ بن سکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر فیصل ندیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)