ویمن فرینڈلی بینکنگ 

پاکستان میں مالیاتی خدمات  کا جائزہ لیا جائے تو یہاں اکثر لوگوں کے پاس بس ایک کرنٹ یا بچت اکاؤنٹ ہی ہے اور یہ بالکل بنیادی چیز ہے۔ یہاں قرض لینا تو چھوڑیئے بینک سے کریڈٹ کارڈ کا حصول بھی ایک مشکل کام ہے۔کچھ عرصے تک (اور شاید کسی حد تب اب بھی) سٹیٹ بینک نے خواتین کو مالیاتی شمولیت کے جال میں لانے کیلئے آسان کھاتے (اکاؤنٹس) متعارف کروائے تاہم یہ منصوبہ خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکا اور اب سٹیٹ بینک کی جانب سے ایک سے زیادہ جامع پالیسی اپنائی گئی ہے۔ رواں ہفتے سٹیٹ بینک نے نئی حکمت عملی جاری کی ہے‘ جس کا آغاز مسئلے کی سنگینی بیان کرنے سے ہوا ہے۔ فنڈیکس کے مطابق سال دوہزارچودہ میں پاکستان میں جو صنفی فرق بارہ فیصد تھا وہ دوہزارسترہ میں بڑھ کر اٹھائیس فیصد ہو چکا ہے یوں ہم جنوبی ایشیا میں سب سے بُری کارکردگی دکھانے والے ممالک میں سے ایک ہیں۔ گزشتہ تین برس کے دوران پاکستان میں پچپن لاکھ نئے بینک اکاؤنٹ کھلے ہیں تاہم جون 2020ء تک ملک میں خواتین کے کل اکاؤنٹس کی تعداد صرف ایک کروڑ چھیاسی لاکھ تھی جو بالغ خواتین کی آبادی کا تقریباً اٹھارہ فیصد بنتا ہے۔ چھتیس صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں مالیاتی خدمات میں خواتین کی شمولیت بڑھانے کیلئے پانچ پہلوؤں پر توجہ دینے کی بات کی گئی ہے۔ ان میں سے پہلی چیز مالیاتی اداروں میں صنفی تنوع ہے۔ اس کے مطابق مالیاتی اداروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ دوہزارچوبیس تک اپنے اداروں میں خواتین کی نمائندگی بیس فیصد کرنے کیلئے چھ ماہ کے اندر منصوبے تیار کریں۔ اس کے علاوہ وہ ایک سب کمیٹی اور فوکل پرسن کو بھی نامزد کریں جو جائزے کیلئے سہ ماہی بنیادوں پر سٹیٹ بینک سے ملاقات کرے۔ اس چیز کا اطلاق برانچ لیس بینکنگ پر بھی ہوگا جس میں اس وقت خواتین کی نمائندگی صرف ایک فیصد ہے۔ سٹیٹ بینک کے منصوبے میں اسے دسمبر دوہزاربائیس تک چار فیصد اور دوہزارچوبیس کے اختتام تک دس فیصد پر لانا شامل ہے۔ دوسرا پہلو ایسے اہداف اور خدمات ہیں جن میں خواتین کو مرکزیت حاصل ہو۔ اس میں قرضوں اور بچت کے حوالے سے خصوصی اہداف کی تیاری اور ان خدمات کو صنفی پہلو سے دیکھنے کی بات کی گئی ہے۔ منصوبے کا ایک حصہ خواتین پر مبنی مارکیٹنگ ٹیم تشکیل دینا بھی ہے جو مالیاتی آگہی کے فروغ کیلئے کام کرے اور جس میں انفلوئنسرز اور مذہبی اسکالرز کو بھی شامل کیا جاسکے۔ دستاویز میں احساس پروگرام جیسے دیگر اداروں کے ساتھ شراکت کی بھی بات کی گئی ہے جس میں پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کو نقد رقم کی فراہمی کے بجائے مزید بہتر ذرائع کی جانب لایا جائے۔ آخر میں اس دستاویز میں قرض کی فراہمی اور اس کیلئے ہونے والے دستاویزی عمل کو آسان بنانے کی بات کی گئی ہے۔ اس دستاویز میں اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ خواتین بینک کی برانچوں میں جانے سے کتراتی ہیں اور اس مسئلے کے حل کیلئے تمام کسٹمر ٹچ پوائنٹس پر ویمن چیمپئنز کی موجودگی کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ ویمن چیمپئنز مالیاتی خدمات کی معلومات‘ غیر مالیاتی مشاورت اور شکایات کے حل کیلئے کام کریں گی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اب شاید سٹیٹ بینک کو بھی اس چیز کا احساس ہوگیا ہے کہ صرف باتیں کرنے اور مالیاتی خدمات میں برابری پر سیمینارز کروانے سے مارکیٹنگ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مالیاتی اداروں کو کہا گیا ہے کہ وہ ”سہ ماہی بنیادوں پر صنفی تفریق پر اعداد و شمار جمع کریں اور اسے سٹیٹ بینک میں جمع کروائیں تاکہ وہ بینک اکاؤنٹس‘ قرضوں کی طلب‘ ادائیگیوں‘ زرعی ادائیگیوں‘ اسلامک فنانس وغیرہ میں خواتین کی شراکت کے حوالے سے مستعد رہیں۔“  (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: مطاہر خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)