کشمیر: اقوام متحدہ سے مسلم اُمہ تک

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے جاری سالانہ اجلاس کی اِس مرتبہ زیادہ تر کاروائی ’ویڈیو لنک‘ کے ذریعے ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی ویڈیو لنک ہی کے ذریعے اجلاس سے خطاب کیا تاہم اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی اس اجلاس کے حوالے سے نیویارک میں موجودگی اس لئے بھی خوش آئند رہی کہ اس موقع پر او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے جموں و کشمیر سے متعلق او آئی سی رابطہ گروپ کا اجلاس بھی منعقد کر لیا اس طرح دیرینہ کشمیر مسئلے پر او آئی سی کا مشترکہ مؤقف بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سامنے آ گیا جو اپنی جگہ نہایت ضروری ہے چونکہ کشمیر کا تنازعہ مستقل طور پر جنرل اسمبلی کے ایجنڈے پر ہے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی جنرل اسمبلی توثیق کر چکی ہے اس لئے جنرل اسمبلی کا موجودہ اجلاس میں او آئی سی رابطہ گروپ کے مشترکہ اعلامیہ کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے مستقل اور پائیدار حل کیلئے ٹھوس بنیادوں پر لائحہئ عمل طے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ علاقائی اور عالمی امن مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے ساتھ ہی منسلک ہے جبکہ اس کا قابلِ قبول اور پائیدار حل سلامتی کونسل کی قراردادیں روبہ عمل لانے سے ہی ممکن ہے۔ عالمی برادری کو بالآخر اس حل کی طرف ہی آنا ہے جس کیلئے بھارت سے مقبوضہ وادی میں استصواب کا اہتمام کرانا ہو گا جبکہ بھارت کو سخت عالمی دباؤ کے تحت ہی کشمیر میں استصواب کیلئے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ بھارت نے استصواب رائے کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کی آج تک نوبت ہی نہیں آنے دی اور اس کی بجائے 1948ء میں کشمیر پر قائم کیا گیا اپنا فوجی تسلط اب تک برقرار (جاری) رکھا ہوا ہے جس کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی ہٹ دھرمی چھوڑنے پر وہ کسی صورت آمادہ نہیں۔ بھارت نے جدوجہدِ آزادی سے وابستہ کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے بھی کوئی ہتھکنڈہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا چنانچہ بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے کشمیریوں کی تحریک بے بہا جانی و مالی قربانیوں کے ساتھ آزادی کی یادگار تحریک بن چکی ہے جو اقوام عالم میں اور نمائندہ عالمی اور علاقائی فورموں پر تسلیم شدہ تحریک ہے۔ بھارت کی مودی سرکار نے تو کشمیریوں پر ظلم و جبر کی انتہا کر رکھی ہے جس نے کشمیریوں کیلئے اقوام عالم میں آواز اٹھانے کی پاداش میں پاکستان کی سلامتی پر اوچھے وار کئے اور اب بھی پاکستان کی داخلی سلامتی کے درپے ہے۔ اسی تناظر میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھائی اور کشمیر کی کنٹرول لائن پر روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کی جانب یک طرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ دراز کیا جس کا اسے مسکت جواب ملتا رہتا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کیلئے جو اقدامات کئے اُن میں پارلیمینٹ کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئینی شقوں کو حذف کرانا شامل ہے اور پھر بھارتی شہریت ایکٹ میں بھی ترمیم کرا کے غیر کشمیریوں کیلئے کشمیر کی شہریت حاصل کرنے کا راستہ نکلوا لیا۔ ان بھارتی جبری اقدامات کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوا جو آج بھی جاری ہے۔ نمائندہ عالمی اداروں بشمول سلامتی کونسل‘ یورپی پارلیمنٹ اور برطانوی پارلیمنٹ نے بھی اس بھارتی اقدام کے خلاف قراردادیں منظور کیں اور بھارت سے کشمیر کی پانچ اگست دوہزاراُنیس سے پہلے والی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ و تقاضا کیا مگر بھارت عالمی برادری کی کسی بھی آواز پر ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اس کے برعکس وہ اپنے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر کو جبراً بھارت میں ضم کر چکا ہے جسے کشمیری عوام نے قبول نہیں کیا اور اپنی آزادی کی جدوجہد مزید تیز کر دی ہے۔ بھارت اپنے جبر میں جتنی شدت پیدا کرتا ہے‘ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ کشمیریوں کی جانب سے مزاحمت کی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کی زندگی‘ اُن کی قربانیاں اور شہادت ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی جنہوں نے جبر کے ماحول کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جن کی نعش اُن کے لواحقین سے چھین کر رات کے اندھیرے میں دفنائی گئی جو بذات خود انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تھی چنانچہ کشمیریوں نے اس بھارتی جبر کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اُن کے اِس احتجاج کی صدائے بازگشت برطانوی پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی جہاں کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بحث ہوئی اور بھارت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس موقع پر برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے اس امر پر زور دیا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کو جنرل اسمبلی میں خطاب کے موقع پر کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر چیلنج کیا جائے اور کشمیریوں کے حقِ رائے دہی کیلئے آواز اٹھائی جائے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ بھارت کے اندر بھی مسلمان اقلیتوں پر مظالم میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بھارت کی مسلم دشمنی میں تمام حدیں پار کرتے ہوئے ریاست آسام میں بنگالی مسلمانوں کے 800گھر مسمار کر دیئے ہیں اور مزاحمت کے دوران کئی مسلمانوں کو شہید کیا ہے۔ اسی طرح ضلع بارہمولا میں قابض بھارتی فوج نے جعلی مقابلے میں چار کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا۔ بھارتی مظالم سے پیدا ہونے والی یہ صورتحال جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی قیادتوں کے نوٹس میں لانے کی متقاضی ہے تاکہ اس اجلاس کے دوران ہی مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کی کوئی سبیل پیدا ہو سکے۔ اگر برطانیہ‘ او آئی سی کے رکن ممالک اور بھارتی مظالم سے آگاہ دیگر عالمی قیادتیں مؤثر کردار ادا کریں تو جنرل اسمبلی کے موجودہ اجلاس میں ہی بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ قراردادوں پر عملدرآمد پر مجبور کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر بھارتی توسیع پسندانہ عزائم علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے مستقل خطرہ بنے رہیں گے۔اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی رابطہ گروپ کے وزرائے خارجہ اجلاس میں جموں و کشمیر کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ قرار دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا تقاضا کیا گیا ہے اور باور کرایا گیا ہے کہ یہ دیرینہ مسئلہ اقوام متحدہ قراردادوں کے مطابق ہی حل ہونا ہے جس کے بغیر مغربی ایشیا میں پائیدار امن کا حصول ناممکن ہے۔ نیویارک میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر وہاں موجود او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس کا بھی انعقاد کیا جس کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں جموں و کشمیر تنازعہ پر ’او آئی سی‘ کے مؤقف کا اعادہ کیا گیا اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کا عزم دہرایا گیا۔ اجلاس میں بھارت کے پانچ اگست دوہزاراُنیس کے یک طرفہ اقدام کو مسترد کیا گیا۔ اسی طرح غیر کشمیریوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کرنے کا بھارتی فیصلہ بھی مسترد کیا گیا۔ ضرورت بھارت کی ہٹ دھرمی اور بھارت کے مختلف حصوں میں مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کو دنیا کے سامنے پیش کرنے اور ایک مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنے کی ہے جس کیلئے کم سے کم مسلم ممالک کو متحد ہونا چاہئے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: علی جاوید بٹ۔ترجمہ: ابوالحسن امام)