جرمنی میں وفاقی انتخابات ہوئے ہیں جن کے ابتدائی نتائج کے مطابق بائیں بازو کی معتدل جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے سبکدوش ہونے والی چانسلر اینگلا مرکل کی سیاسی جماعت کو کانٹے دار مقابلے کے بعد شکست دی ہے۔ مرکل وہ خاتون تھیں جس نے جرمنی کی سیاسی بحث کا مرکز سیاست سے ہٹا کر پالیسی کی جانب موڑ دیا تھا‘ اِن سے قبل جرمنی کی سیاست میں مردوں کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی اور اسے کلب آف مین کہا جاتا تھا۔ مرکل کے اقتدار کے دوران بیانیہ پالیسی کے گرد گھومنے لگی ہیں۔ اس طرزِ حکمرانی کا مسئلہ شاید یہ ہے کہ یہ خاصا مکینیکل اور سائنسی ہو جاتا ہے۔ مرکل کی تربیت بطور فزسسٹ ہوئی ہے اور انہوں نے کوانٹم کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ اس لئے بھی ان کے طرزعمل کی بنیاد حقیقت پسندی پر ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جو انتہائی شاندار ہو لیکن انہوں نے اپنے ہی طریقے سے جرمنی اور دنیا کی سیاست میں انقلاب برپا کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب سیاست وقت کے منقسم کرنے والی ہوتی جا رہی تھی انہوں نے معاملات کو غیر سیاسی بنا کر یہ تقسیم ختم کرنے کی کوشش کی۔ مرکل کو فوربز کی جانب سے گذشتہ دس برس کے دوران دنیا کی سب سے طاقتور خاتون کا خطاب دیا گیا جبکہ جرمنی میں ایک نسل نے اِس خاتون رہنما کے علاوہ اپنے ملک کا کوئی دوسرا قائد نہیں دیکھا۔ ان کی سیاسی پوزیشن خواتین کی نمائندگی کی علامت کے اعتبار سے بھی انتہائی اہم رہی ہے اور وہ اپنے دورِ اقتدار کے دوران خواتین کو اہم عہدوں پر بھرتی کرنے کی وجہ سے بھی مشہور رہی ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے ارسلا وان در لیئن کی حمایت کی جو جرمنی کی پہلی خاتون وزیرِ دفاع اور یورپی کمیشن کی صدر بھی رہیں۔حالیہ انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹکس نے پچیس اعشاریہ سات فیصد جبکہ قدامت پسند حکمراں جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے چوبیس اعشاریہ ایک فیصد ووٹ حاصل کئے۔ سیاسی جماعت گرین نے اپنی جماعت کی تاریخ کا کامیاب ترین نتیجہ حاصل کیا ہے اور چودہ اعشاریہ آٹھ فیصد ووٹ کے ساتھ یہ جماعت تیسرے نمبر پر ہے۔ حکومت بنانے کے لئے اب ایک اتحاد کی ضرورت ہو گی۔ اس سے قبل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اولاف شولز نے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے پاس حکومت بنانے کا واضح مینڈیٹ موجود ہے۔ واضح رہے کہ ایگزٹ پولز کے نتائج میں دونوں جماعتوں کے درمیان سخت مقابلے کی پیشگوئی کی گئی تھی لیکن یہ الیکشن شروع سے ہی غیر متوقع رہا اور صرف نتیجہ ہی کبھی بھی کہانی کا اختتام نہیں ہونے والا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سبکدوش ہونے والی چانسلر مرکل اس وقت تک کہیں نہیں جا رہیں جب تک حکومتی اتحاد نہیں بن جاتا اور اس کے لئے کرسمس تک انتظار بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ مرکل کے جانشین کو آئندہ چار برس کے لئے یورپ کی صف اوّل کی معیشت کی قیادت کرنا ہو گی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل کو بھی دیکھنا ہو گا۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں نے اولاف شولز کے لئے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اولاف شولز نے اپنی جماعت کی برتری کے بعد ٹیلی ویژن پر بتایا کہ ووٹرز نے اُنہیں ”جرمنی کے لئے اچھی اور عملی حکومت‘‘بنانے کی ذمہ داری سونپی ہے تاہم ان کے قدامت پسند حریف نے جواب دیا کہ یہ (ووٹرز کی رائے) ”اکثریت‘‘نہیں بلکہ حکومتی اتحاد بنانے کے بارے میں ہے۔چھبیس ستمبر کی رات جرمنی کے انتخابات کے بارے ایک ہیڈ لائن یہ تھی کہ ”شاید دو چانسلر اور دو کنگ میکرز‘‘جو دراصل اس الیکشن کے نتائج کا خلاصہ کرتی ہے لیکن ایسا نہیں کہ صرف سوشل ڈیموکریٹک اور قدامت پسند رہنما طاقت کے حصول کے لئے لڑ رہے ہیں۔ دو کنگ میکر گرینز (ماحولیات دوست سیاسی جماعت گرین) اور لبرلز اور کاروبار کی حامی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) ہیں اور وہ مختلف پیشکشوں کا استقبال کر رہے ہیں اگرچہ گرینز یا لبرلز نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن وہ مل کر ووٹ کا ایک چوتھائی حصہ بنتے ہیں اور دونوں بڑی جماعتوں کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ کسی بھی بڑی پارٹی کے مقابلے میں تیس سال سے کم عمر ووٹروں میں بہت زیادہ مقبول ہیں تاہم انہیں ایک چھت تلے لانے میں خاصی مہارت درکار ہو گی۔ جرمنی کی سیاسی تاریخ میں شاید ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ اِس ملک کو سہ رخی اتحاد کا سامنا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جرمنی ایک نئے سیاسی دور میں داخل ہو چکا ہے۔ بائیں بازو کے امیدوار ڈائی لنکے پارلیمان سے بھی باہر ہو سکتے ہیں اگر ان کے حتمی ووٹ پانچ فیصد سے کم ہوئے اور اگرچہ دائیں بازو سے اے ایف ڈی کا ووٹ قومی سطح پر کم ہوتا دکھائی دیتا ہے لیکن یہ سیکسونی اور تھرنگیا کی مشرقی ریاستوں کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ ذرائع ابلاغ مرکل کا پسندیدہ قول نقل کر رہے ہیں کہ جب ایک موقع پر اُن سے پوچھا گیا کہ جرمنی کے بارے میں کیا سوچتی ہیں اور کیا محسوس کرتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ”میں ایسی کھڑکیوں کے بارے میں سوچتی ہوں جو اچھی طرح بند کی گئی ہو۔ کوئی ملک اس سے بہتر اتنی محفوظ کھڑکیاں نہیں بنا سکتا۔‘‘اس سے ان کی عاجزی اور حقیقت پسندی کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ مرکل کے ساتھ جرمنی میں اصلاحات کا ایک دور اختتام پذیر ہوا۔ انہوں نے جو کچھ کہا اُسے انتہائی عملی طریقے سے پرکھا اور سرانجام دیا اور شاید یہی وہ بات ہے جو جرمنی کے لوگ مرکل کی کمی ایک عرصے تک محسوس کی جاتی رہے گی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عالیہ مظفر (فرینکفرٹ)۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)