افغانستان میں امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک کی 20 سالہ موجودگی‘ طویل ترین اور مہنگی ترین جنگی دور ثابت ہوا۔ امریکہ کی براؤن یونیورسٹی نے ’کاسٹ آف وار پراجیکٹ (جنگی اخراجات)‘ کے حوالے سے ایک تحقیق کی‘ جس سے معلوم ہوا ہے کہ اِس جنگ پر امریکی خزانے سے کئی ارب ڈالر خرچ ہونے کے باوجود افغان جنگ میں ناکامی ہوئی لیکن کچھ افراد کیلئے یہ جنگ ”زبردست منافع“ کا باعث رہا۔ مذکورہ تحقیق (کاسٹ آف وار) کے مطابق سال 2001ء سے 2021ء کے درمیان امریکہ نے جتنے پیسے افغان جنگ پر خرچ کیے‘ اس میں سے نصف رقم کی ادائیگی افغانستان میں امریکی محکمہ دفاع کے مختلف آپریشنز کے اخراجات پورے کرنے کیلئے کی گئی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر افغان جنگ امریکہ کو اِس قدر مہنگی کیوں پڑی؟ اِس سوال کا جواب وہ نجی کمپنیاں ہیں جن کی خدمات حاصل کی گئیں اور اِن میں اکثریت امریکی کمپنیوں کی ہے جنہوں نے فوجی کاروائیوں کو سہارا دیا۔ افغان جنگ میں امریکی افواج کے اپنے فوجی اور وسائل بہت کم تھے۔ اکثر وسائل دفاعی کنٹریکٹرز نے فراہم کئے مجموعی طور پر امریکی فوجیوں کے مقابلے کنٹریکٹرز کی تعداد (افرادی قوت) دگنی تھی۔ سیاسی طور پر امریکی فوجیوں کی حد مقرر کی گئی تھی جو افغانستان میں تعینات کیے جانے تھے۔ کنٹریکٹرز کی تعداد اسی بنیاد پر طے کی جاتی تھی۔ افغانستان دشوارگزار تھا جہاں فوری طور پر بہت زیادہ کام درکار تھا۔ اس کا مطلب کنٹریکٹرز (کے فوجی) طیاروں کو ایندھن فراہم کرتے تھے‘ ٹرک چلاتے تھے‘ کھانا بناتے تھے‘ صفائی کرتے تھے‘ ہیلی کاپٹر اڑاتے تھے اور ہر قسم کے سامان کی منتقلی کرتے تھے۔ انہوں نے فوجی اڈے‘ ائرپورٹ‘ ہوائی پٹیاں وغیرہ تعمیر کئے۔ افغان جنگ میں کن کمپنیوں نے کتنا منافع کمایا اور مالی فائدے اُٹھایا اِس کے بارے میں سرکاری معلومات دستیاب نہیں مگر امریکہ کی معروف جامعہ باسٹن یونیورسٹی میں کاسٹ آف وار پراجیکٹ کا حصہ ’بیس سالہ جنگ‘ منصوبے کے تحت شائع شدہ تخمینہ جات جو کہ امریکی حکومت کی ویب سائٹ ”یو ایس اے سپینڈنگ ڈاٹ کام“ سے حاصل کئے گئے ہیں۔ یہ ویب سائٹ امریکہ میں دوہزارآٹھ کے مالی بحران کے بعد تشکیل دی گئی تھی اور اس میں امریکی حکومت کے اخراجات سے متعلق معلومات امریکی عوام کے لئے فراہم کی جاتی ہیں تاکہ اُنہیں معلوم ہو سکے کہ اُن کے ٹیکسوں کا پیسہ کہاں اور کیسے خرچ ہو رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق افغانستان میں امریکہ کے لئے کام کرنے والی تین سرِفہرست کمپنیوں ڈینکارپ‘ فلور اور کیلوگ براؤن اینڈ روٹ تھیں جنہیں سب سے زیادہ ٹھیکے دیئے گئے۔ ان کمپنیوں کو لاجسٹکس اوگمینٹیشن پروگرام فار سویلین پرسونل کے تحت ٹھیکے دیئے جاتے رہے اور اس کے علاوہ انہیں معمولی نوعیت کے ٹھیکے بھی دیئے گئے۔ عموماً عام طور پر ایل او جی سی اے پی کے ٹھیکے ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے دئیے جاتے ہیں تاکہ مختلف سروسز حاصل کی جاسکیں جیسے لاجسٹکس‘ مینجمنٹ‘ ٹرانسپورٹ‘ سپورٹ‘ سامان کی مرمت‘ طیارے وغیرہ۔ امریکی کمپنی ڈینکارپ سے افغانستان میں مختلف سروز حاصل کی گئیں جن میں ملک کی نیشنل پولیس اور انسداد منشیات کی فورسز کو سامان کی فراہمی اور تربیت شامل تھی۔ یہ کمپنی سابق صدر حامد کرزئی کی حفاظت کیلئے باڈی گارڈز کی ٹیم بھی دیتی تھی۔ ڈینکارپ کو حال ہی میں ایک دوسری امریکی کمپنی امینٹم نے خرید لیا ہے۔ پیلٹر کے مطابق ڈینکارپ کو مختلف ٹھیکوں کی مد میں ساڑھے سات ارب ڈالر ملے اور مجموعی طور پر انہیں چودہ اعشاریہ چار ارب ڈالر کے ٹھیکے دیئے گئے۔ اِسی طرح ”فلور“ نامی کمپنی کو چھپن ہوائی اڈے آپریٹ کرتے تھے جہاں ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجیوں کو سہولیات فراہم کی جاتی تھیں اور ایک دن میں ایک لاکھ اکانوے ہزار سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلاتا تھے۔ مجموعی طور پر فلور کارپوریشن نامی کمپنی کو افغانستان میں ساڑھے تیرہ ارب ڈالر کے ٹھیکے دیئے گئے جن میں سے بارہ اعشاریہ چھ بلین کے ٹھیکے دیئے گئے۔ تیسری امریکی کمپنی کے بی آر تھی جس نے امریکی فوج کی حمایت کے لئے انجینئرنگ اور لاجسٹکس کا کام سونپا گیا تھا۔ انہیں رہائش‘ کھانے پینے اور بنیادی ضروریات کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ افغانستان کے متعدد ہوائی اڈوں کے ذریعے نیٹو افواج فضائی آپریشنز کرتی تھیں۔ زمین پر ان کی معاونت کیلئے کے بی آر کو ذمہ داری حاصل تھیں۔ ان میں مختلف سروسزشامل ہیں جیسے رن وے اور طیاروں کی سروس‘ ہوائی اڈوں کی مینجمنٹ اور ایروناٹیکل (فضائی) مواصلات۔ چوتھی کمپنی ریتھیون تھی۔ یہ امریکہ میں بڑی فضائی اور دفاعی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اسے افغانستان میں سہولیات کی فراہمی کیلئے ڈھائی ارب ڈالر کے ٹھیکے ملے۔ اسے حال ہی میں افغان ائرفورس کی ترتیب کی ذمہ داری بھی دی گئی جس کے لئے دوہزاربیس میں ایک سو پینتالیس ملین ڈالر کا ٹھیکہ تھا۔ ورجینیا میں قائم سکیورٹی اور انٹلی جنس کی کمپنی ایگس ایل ایل سی افغانستان میں سب سے زیادہ پیسے کمانے والی پانچویں سب سے بڑی کمپنی تھی۔ اسے امریکی حکومت سے اعشاریہ دو ارب ڈالر کے ٹھیکے ملے تھے۔ اسے کابل میں امریکی سفارتخانے کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں جنگ کے دوران سب سے زیادہ مالی فائدہ دفاعی کمپنیوں کو ہوا‘ جیسے بوئنگ‘ ریتھیون‘ لاک ہیڈ مارٹن‘ جنرل ڈائنیمکس اور نارتھ روپ گرومین تاہم یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ انہوں نے اس دوران کل کتنے پیسے وصول کئے کیونکہ ان کے کنٹریکٹ افغانستان میں آپریشنز سے براہ راست تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان تمام کمپنیوں کو امریکہ کیلئے چیزیں بنانے کے ٹھیکے دیئے گئے جنہیں افغانستان میں استعمال کیا گیا۔ کاسٹ آف وار پراجیکٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی فوج کیلئے ٹھیکوں میں ان پانچ کمپنیوں نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوہزارایک سے بیس سو بیس تک ان پانچ کمپنیوں کو پینٹاگون سے دو عشاریہ ایک کھرب ڈالر کے ٹھیکے ملے۔ افغانستان میں امریکہ کے جنگی اخراجات میں کئی معاہدے قواعدوضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیئے گئے کیونکہ وہ ایک ہنگامی حالت تھی جس میں قیمت سے زیادہ خدمات کی فراہمی ضروری تھی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: صغیر اکبر خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)