مسئلہ یہ ہے کہ دنیا نے جب بھی افغانستان سے متعلق پاکستان کے مؤقف کو درست اور واحد قابل عمل حل تصور کیا اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور یہی صورتحال اب بھی درپیش ہے کہ پاکستان کی جانب سے یہ بات بار بار اور زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ ”اگر افغانستان میں طالبان نے شمولیتی حکومت قائم نہ کی تو آنے والے دنوں میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے‘ جس کا نتیجہ غیر مستحکم اور انتشار کا شکار افغانستان کی صورت میں نکلے گا۔“ دوسری طرف چین کی وزارت خارجہ نے اِس امید کا اظہار کیا ہے کہ ”افغانستان میں تمام دھڑے مل کر عوام اور بین الاقوامی برادری کی امنگوں کے مطابق فیصلے کریں گے اور ایک شمولیتی سیاسی ڈھانچہ کھڑا کریں گے۔اِسی طرح روس کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ”سب سے اہم بات یہ ہے کہ طالبان نے جو وعدے عوام سے کئے ہیں اُنہیں پورا کیا جائے۔“ مذکورہ تینوں بیانات تین ایسے ممالک (پاکستان‘ چین اور روس) کی جانب سے ہیں جنہوں نے دوحا امن مذاکرات اور طالبان کی عبوری حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت کی بظاہر حمایت کر رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ چین اور روس دونوں ہی افغانستان میں امریکی تسلط سے خوش نہیں تھے اور ان کی شروع دن سے کوشش تھی کہ جب امریکی افواج کا انخلا ہو جائے گا تو اس کے بعد پیدا ہونا والا خلا وہ پُر کریں گے جبکہ چین پہلے ہی افغانستان کے معدنی وسائل کو ترقی دینے کیلئے ضروری ’ہوم ورک‘ کر چکا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ تینوں ممالک (پاکستان‘ چین اور روس) طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے کیوں گریزاں ہیں جبکہ یہ ممالک طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں؟ فی الوقت طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ایک ایسا فیصلہ ہوگا جس کے ذریعے افغانستان حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے۔ چین‘ روس اور پاکستان اس کارڈ کو فی الحال ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں مگر وہ کوئی خطرہ بھی مول نہیں لینا چاہتے۔ تجزیہ کار مانتے ہیں کہ اگر یہ تینوں ممالک اس موقع پر طالبان حکومت کو تسلیم کر لیتے ہیں تو اُن کے پاس اس حکومت سے فائدہ اٹھانے کیلئے کوئی شرط نہیں ہو گی کہ جس سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک مرتبہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے بعد یہ فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکے گا‘اس مرتبہ پاکستان اس معاملے پر محتاط اور عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود پاکستان کی حمایت طالبان کیلئے ہے۔ اس دوران امداد بھی کی جا رہی ہے اور تجارت کے مسائل پر بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ جو چیزیں دو طرفہ تعلقات میں ہوتی ہیں وہ یہاں بھی فعال ہیں لیکن قانونی اور سفارتی وجوہات کی وجہ سے پاکستان ہچکچا رہا ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ بہرحال پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے اور پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ وہ طالبان پر تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کاروائی کرنے کیلئے دباؤ ڈالے۔ وسیع تر تناظر میں اہم یہ ہے کہ افغانستان میں استحکام اور خطے میں پاکستان اپنی برتری قائم رکھے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ہمایوں قاضی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)