چین عالمی شراکت دار

عوامی جمہوریہ چین کے 72ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر اُس حکمت عملی کا جائزہ لینا ضروری ہے جس کے تحت چین عالمی سطح پر ترقی کا شراکت دار بنا ہوا ہے اور گذشتہ برس کے دوران دنیا کے مختلف ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کی مد میں قرض فراہم کرنے والا چین سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے۔ تازہ ترین شواہد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چین نے گذشتہ چند برسوں کے دوران امریکہ اور دیگر معاشی طاقتوں کے مقابلے میں ترقیاتی منصوبوں کی مد میں چینی سٹیٹ بینکوں سے ہائی رسک قرضوں کی صورت میں دگنے پیسے مختلف ممالک پر خرچ کئے ہیں۔ چین کی جانب سے اتنی رقم ادھار دینا حیران کن ہے کیونکہ کچھ عرصہ قبل تک چین خود بیرونی امداد لیتا تھا مگر اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ گذشتہ اٹھارہ برس کے دوران چین نے 165 ممالک کو 13427انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لئے مجموعی طور پر 843ارب ڈالرز کے قرض دیئے ہیں۔ ان قرضوں میں سے زیادہ کا تعلق چینی صدر شی جن پنگ کے بڑے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ سے ہیں۔ دوہزارتیرہ سے چین انفراسٹرکچر میں مہارت اور غیر ملکی سرمائے کی مدد سے نئے بین الاقوامی تجارتی راستوں کی تعمیر کا فائدہ اٹھا رہا ہے تاہم ناقدین کو خدشہ ہے کہ بہت سے چینی منصوبوں کے لئے بھاری سود والے قرضے اور چینی سرکاری کمپنیوں کے مبہم معاہدے ان ممالک کو پریشان کر رہے ہیں۔ چین نے متعدد ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے جو بھاری قرض دے رکھے ہیں اور اس قرض کی بروقت ادائیگی نہ ہونے پر نتیجہ ان کے اثاثوں کی چینی ملکیت میں جانے یا گروی رکھے جانے کی صورت میں نکلا ہے۔ چین اور اس کے ہمسایہ ملک لاؤس کے درمیان چلنے والی ٹرین سروس کو ایسی ہی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دہائیوں تک سیاستدان جنوب مغربی چین کو جنوب مشرقی ایشیا ء کے ساتھ منسلک کرنے کے اس منصوبے کے بارے میں سوچتے رہے تاہم انجینئرز خبردار کرتے رہے کہ اس پر بہت زیادہ لاگت آئے گی کیونکہ اس پٹڑی کو بلند پہاڑوں اور گہری گھاٹیوں سے گزرنا ہو گا اور اس کے لئے سینکڑوں سرنگیں اور پل تعمیر کرنے ہوں گے۔ اس موقع پر چین کے بڑے بینکار اس منصوبے میں کود پڑے اور بڑی چینی سرکاری کمپنیوں اور چین کے سرکاری قرض دینے والے اداروں کے کنسورشیم کی حمایت سے پانچ ارب نوے کروڑ ڈالر کے اس منصوبے کے تحت رواں برس دسمبر میں ٹرین سروس شروع ہو رہی ہے۔ لاؤس خطے کا غریب ترین ملک ہے اور اس منصوبے کی لاگت کا معمولی حصہ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا چنانچہ اس نے اپنا حصہ ڈالنے کے لئے چینی بینک سے چالیس کروڑ اَسی لاکھ ڈالرز قرض لیا جس کی ضمانت کے طور پر لاؤس کے اہم ذرائع آمدن میں سے ایک یعنی پوٹاش کی کانوں سے ہونے والی آمدن کو استعمال کیا گیا۔ ستمبر دوہزاربیس میں جب لاؤس دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا تو اس نے ملک کا ایک بڑا اثاثہ چین کے حوالے کر دیا۔ یہ اس کے توانائی کے نظام کا ایک حصہ تھا جس کے عوض اس نے چین سے ساٹھ کروڑ ڈالر حاصل کئے تاکہ اسے چینی کمپنیوں سے ہی لئے گئے قرض کی واپسی میں کچھ وقت مل سکے اور یہ سب ٹرین منصوبے کے تحت سروس کے آغاز سے پہلے ہو چکا ہے۔پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا جنہیں چین کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے لئے اربوں ڈالرز قرض مل رہا ہے۔ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت سب سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے جن ممالک کو فنڈ دیا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت ملنے والے قرض کا تراسی فیصد حصہ توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبے پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ان شعبوں کے منصوبوں میں کوئلے سے چلنے والے بجلی پلانٹس‘ ڈیمز‘ سڑکوں کی تعمیر اور صنعتی و اقتصادی بستیاں (زونز) کا قیام شامل ہے۔  چین کے قرض کا چالیس فیصد اب سرکاری کمپنیوں‘ ریاستی بینکوں‘ خاص مقاصد کی گاڑیوں‘ مشترکہ وینچرز اور نجی شعبے کے اداروں کو دیا جا رہا ہے اور ان میں سے زیادہ تر حکومت کی بیلنس شیٹ میں ظاہر نہیں کیا جاتا تاہم چین نے اکثر اداروں کو یہ قرض نادہندگی کی صورت میں حکومت کی ضمانت پر دیا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ادریس فاروقی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)