پیٹرولیم مصنوعات: متوقع ردوبدل

مہنگائی میں اضافے کا ایک محرک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہیں‘ جن کی شرح میں کئی ہفتوں سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور یہ قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے یکم اکتوبر کو پٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 127.30روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 122.04روپے جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت 99.31 روپے فی لیٹر ہو چکی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل ہونے والے اضافے اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی پر جہاں عوام اور حزب اختلاف کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے وہیں حکومت بار بار یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت ابھی بھی دنیا کے بہت سے ممالک اور خاص کر خطے کے ممالک سے کم ہے۔ اس سلسلے میں خاص کر خطے کے دو ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کا حوالہ دیا جاتا ہے‘ جہاں حکومت کا دعوی ہے کہ ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں پاکستان سے کہیں گنا زیادہ ہیں۔ حکومت کیلئے یقینا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ مشکل فیصلہ ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ عالمی منڈی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ پاکستان میں اضافہ عالمی منڈی کے مقابلے میں کم کیا گیا ہے۔ حکومت پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو بتدریج کم کر رہی ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے برطانیہ میں پاکستان سے بھی زیادہ مہنگائی ہے اور پاکستان کے مقابلے میں وہاں پیٹرولیم قیمتیں اکتیس فیصد بڑھی ہیں جب کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پٹرول کی قیمت یہاں کم ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں تسلسل سے اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ وجہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت 78ڈالر فی بیرل جبکہ گذشتہ مالی سال میں یہ قیمتیں اوسطاً 53ڈالر رہیں۔ ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کا اثر پاکستان پر بھی پڑرہا ہے تاہم پاکستان میں اس کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بھی خام تیل کی درآمد کو مہنگا بنا رہی ہے۔ حکومت نے ابھی تک خام تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کو پوری طرح عوام تک منتقل نہیں کیا اور سیلز ٹیکس کی شرح کو کم کر کے وہ زیادہ قیمت نہیں بڑھا رہی۔ اسی طرح پٹرولیم ڈویلمپنٹ لیوی کی مد میں بھی حکومت نے زیادہ پیسے وصول نہیں کئے۔ ذہن نشین رہے کہ حکومت نے مالی سال میں پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں چھ سو ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا۔ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ تیس روپے فی لیٹر بنتی ہے تاہم فی الحال یہ پانچ اعشاریہ باسٹھ روپے کی سطح پر موجود ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ حکومت نے سیلز ٹیکس کی شرح کم کی ہے تاہم درآمدی مرحلے پر حکومت کسٹم ڈیوٹی اور ایڈوانس ٹیکس کی مد میں اچھا خاص ٹیکس اکٹھا کر لیتی ہے۔ پاکستان آج سے چند سال قبل گیارہ سے بارہ ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کر رہا تھا اور اب ان مصنوعات کا درآمدی بل اُنیس سے بیس ارب ڈالر ہو چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ امپورٹ سٹیج پر حکومت زیادہ ٹیکس پٹرولیم مصنوعات پر حاصل کر رہی ہے۔ اگر حکومت پی ڈی ایل کی مد میں زیادہ ٹیکس نہیں وصول کر رہی تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ آئی ایم ایف سے شرائط کے تحت اسے یہ وصول کرنا ہے اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ملنے والے قسط مالی خسارے کو کم کرنے کیلئے بہت ضروری ہے۔ حکومت کے مطابق پاکستان میں ڈیزل اور پٹرول کی کم قیمت کا دنیا خاص کر دنیا اور خاص کر خطے کے دوسرے ممالک سے موازنہ صحیح ہے تاہم یاد رہے کہ یہ موازنہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب پاکستان کی معیشت میں شرح نمو مستحکم نہیں تو دوسری جانب پاکستان میں آمدنی کے ذریعے سکڑ رہے ہیں۔پاکستان میں مہنگائی کی شرح آٹھ فیصد ہے  جبکہ  پیٹرولیم مصنوعات کا دیگر ممالک سے موازنہ کرنا درست نہیں۔ حکومت کو یہ موازنہ تمام روزمرہ استعمال کی چیزوں پر کرنا چاہئے تو پھر پتا چلے گا کہ پاکستان میں مہنگائی کی سطح کتنی بلند بلکہ بلند ترین ہے اور اس کے مقابلے میں خطے کے دیگر ممالک کی صورتحال کیا ہے۔ جیسا کہ چینی اور گندم کی قیمت پڑوسی ممالکمیں کیا ہے اور پاکستان میں یہ دونوں ضروری اجناس کس قدر مہنگی کیوں ہیں۔ صرف پیٹرول کی قیمت کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ اسے بحیثیت مجموعی معیشت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ مہنگائی کے محرکات جو بھی ہوں لیکن اشیائے ضروریہ کا تعلق قوت ِخرید سے ہے اور خاص بات یہ ہے کہ پاکستان میں عوام کی قوت خرید ہر دن کم ہو رہی ہے کیونکہ فی کس آمدن کم ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر الیاس سردار۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)