پس منظر: رواں برس مئی اور ستمبر کے درمیان پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے 152 روپے سے کم ہو کر 173 روپے تک جا پہنچی۔ 123 دنوں میں پاکستانی روپے کی قدر میں 21 روپے کی کمی ہونا غیرمعمولی بات ہے اور اگر ہم گزشتہ چالیس برس کے دوران ڈالر اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی بیشی کا مطالعہ کریں تو اِس قسم کی کمی‘ اِس قدر کم عرصے میں نہیں دیکھی گئی۔ یہ چالیس سال کا عرصہ روپے کی قدر کا حکومتی تعین ختم کرنے کا دورانیہ ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان نے 1982ء میں امریکی ڈالر اور دنیا کی دیگر کرنسیوں کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر کے تعین کو غیرمشروط (delink) کر دیا تھا۔ اگر ہم گزشتہ چند ماہ کے دوران یعنی 80 کاروباری دنوں کی بات کریں تو اِس دوران پاکستانی روپے کی قدر میں مجموعی طور پر 14 فیصد کمی ہوئی ہے۔ جون کے وسط اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں‘ سٹیٹ بینک نے بینکوں کو 1.2 ارب ڈالر جاری کئے اور اِس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی مانگ اور اِس کی طلب کے باعث گرتی ہوئی قیمت کو سہارا دیا جا سکے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔روپے کی قدر میں کمی کا اثر مختلف شعبوں پر ہو رہا ہے جن کے الگ الگ ذکر کا مقصد اِن اثرات کی نوعیت اور اِس مستقبل پر اثرات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ روپے کی کمی کا پہلا اثردرآمدات و برآمدات پر دکھائی دیتا ہے۔ جولائی اور اگست میں پاکستان کی درآمدات میں 73 فیصدی یعنی 12 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اگر ہم 74 سالہ قومی اقتصادی تاریخ کا جائزہ لیں تو 2 ماہ میں ہونے والا یہ اضافہ اپنی نوعیت کا منفرد ہے۔ جولائی اگست ہی کے مہینے میں پاکستان کی برآمدات 4.5 ارب ڈالر کے مساوی رہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ درآمدات و برآمدات میں فرق (خسارہ) 7.5 ارب ڈالر کا ہے اور اِس قدر خسارہ بھی پاکستان کی 74 سالہ اقتصادی تاریخ میں اِس سے قبل دیکھنے میں نہیں آیا۔پاکستان کی معیشت کا انحصار غیرملکی قرضوں پر ہے اور یہ قرض فراہم کرنے والے مالیات کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ کی وزارت ِخزانہ (ڈیپارٹمنٹ آف ٹریژری) اور وزارت دفاع (پینٹاگون) کے درمیان رابطہ ہے اور دونوں مل کر اقتصادی فیصلے کرتے ہیں جن کے ذریعے ممالک کی معیشت و اقتصادیات پر حملے کر کے اِنہیں مفلوج بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ 7 سال کے دوران امریکہ کی وزارت خزانہ کا قومی سلامتی کے فیصلوں میں اہم کردار رہا ہے۔ امریکہ 76ویں سیکرٹری خزانہ جیک لا (Jack law) جو کہ سال 2013ء سے 2017ء کے درمیان عہدے پر فائز رہے انہوں نے اِس مالیاتی اقتصادی فیصلہ سازی اور امریکہ کے قومی مفادات کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جیک لا کے اقدامات سے اُن کے مقاصد اور امریکی حکمت ِعملی کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ اُن کا پہلا اقدام یہ تھا کہ امریکہ جن ممالک کے ساتھ فوجی طاقت کے ذریعے معاملہ کرتا ہے اُس کی بجائے وہ اقتصادی اور مالیاتی طریقوں سے معاملہ کرے۔ دوسرا اقدام یہ تھا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کو آگے بڑھانے کیلئے اقتصادی آلات و امور کا سہارا بھی لیا جائے۔ تیسرا اقدام امریکہ کے دشمنوں کے خلاف کاروائیاں اِس انداز سے کی جائیں کہ اِس سے امریکہ کی فوج کا جانی نقصان نہ ہو اور امریکہ کو اپنے اہداف بھی حاصل ہو جائیں۔ چوتھا اقدام امریکہ کے مفادات اور تحفظ کیلئے صرف دفاعی وسائل نہیں بلکہ ہر ذریعے اور ہر وسیلے کا استعمال کیا جائے۔ پانچواں اقدام مالیاتی و اقتصادی فیصلوں اور خارجہ پالیسی کو مربوط کرنا ہے تاکہ قومی سلامتی و حفاظت کے اہداف زیادہ تیزی سے حاصل کئے جا سکیں۔سال 2019ء میں جاری ہوئے ویکی لیکس (WikiLeaks) نامی خفیہ دستاویزات سے معلوم ہوا کہ امریکی فوج کا خصوصی دستہ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد غیرروایتی ذرائع سے جنگ لڑنے ہے۔ امریکہ کی ایک خفیہ دستاویز کے مطالعے سے یہ حکمت عملی عیاں ہوئی کہ دنیا میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے عالمی بینک‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا استعمال کیا جا رہا ہے اور اِن اداروں کا بطور ہتھیار استعمال بالخصوص امریکہ کے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کیا جاتا ہے۔جب کسی ملک پر اقتصادی حملہ (فنانشل اٹیک) کیا جاتا ہے تو اِس کی تین خصوصیات ہوتی ہیں۔ یہ بلاواسطہ (ڈائریکٹ) نہیں ہوتا بلکہ بلواسطہ ضمنی یا ذیلی (اِن ڈائریکٹ) طریقے سے ہوتا ہے۔ اِس حملے کو معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر ہم امریکہ کی مذکورہ حکمت عملی کے تناظر میں پاکستان کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح پاکستان کی کرنسی کی قدر میں کمی اور اِس کے قرضوں پر انحصار کو بڑھایا گیا ہے اور ملک کو ایک ایسے مالیاتی بحران سے دوچار کیا گیا ہے جس میں امریکہ کی مدد اور ضرورت برقرار ہے۔تیرہ ستمبر کے روز امریکہ کے سیکرٹری سٹیٹ بلینکن (Blinken) نے کانگریس کے سامنے اپنے بیان میں کہا کہ ”مستقبل قریب میں امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے گا اور دیکھے گا کہ مستقبل میں پاکستان امریکہ کیلئے کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔“ ستائیس ستمبر کے روز 22 ری پبلکن سینیٹرز نے کانگریس کے 117ویں اجلاس میں ایک قانون بھی منظوری کے پیش کیا جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ طالبان اور طالبان کی مدد کرنے والوں پر عدم تعاون کی صورت عالمی پابندیاں عائد کی جائیں۔ مذکورہ قانون میں پاکستان کا نام 3 مرتبہ ذکر ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ جب امریکہ پاکستان کے خلاف کوئی کاروائی کرے گا تو وہ فوجی نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے اقتصادی و مالیاتی ہتھیاروں سے غیرروایتی طور پر حملہ آور ہوگا اور یہ عمل پہلے ہی سے جاری ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ملک کے اقتصادی نظام کو لاحق بیماری (عارضے) کی نشاندہی ہے اور یہ امر اپنی ذات میں بیماری نہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)