پینڈورا پیپرز یونانی اصطلاح پینڈورا بکس سے ماخوذ ہے اور پینڈورا پیپرز نے کئی ممالک کے سربراہان اور حکومتوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے مشہور سیاست دانوں اور کاروباری حضرات کی معاشی سرگرمیاں اور لین دین کو بے نقاب کیا ہے۔ تحقیقات میں واشنگٹن پوسٹ‘ بی بی سی اور گارڈین سمیت میڈیا کے اداروں سے چھ سو صحافیوں نے حصہ لیا اور دنیا بھر سے چودہ کمپنیوں سے ایک کروڑ اُنیس لاکھ دستاویزات افشا کیں‘ جن کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ ان دستاویزات میں انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے دنیا بھر سے پینتیس موجودہ اور سابق رہنماؤں کو شامل کیا اور تجزیہ کیا ہے جن پر کرپشن سے منی لانڈرنگ اور ٹیکس بچانے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ پاناما پیپرز کا اصل مطلب کیا ہے اُور آف شور کمپنیوں کیا ہوتی ہیں؟صحافیوں کی عالمی تنظیم ’آئی سی آئی جے‘ کے مطابق ٹیکس ہیونز یا آف شور کے مالی مراکز روایتی طور پر ایسے ممالک یا مقامات ہیں جہاں کم یا کارپوریٹ ٹیکس نہیں ہوتا اور غیرملکیوں کو آسانی سے وہاں اپنا کاروبار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ٹیکس ہیونز عام طور پر کمپنیوں اور ان کے مالکان کے حوالے سے عوامی آگاہی محدود کرتی ہیں کیونکہ معلومات سے یہ وضاحت کرنے میں مشکل پیش آسکتی ہے کہ ٹیکس ہیونز بعض اوقات خفیہ حدود بھی کہلاتی ہیں دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور مالی لین دین قوانین سے بچنے یا ٹیکس کے قوانین سے بچنے کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ کمپنیاں اور مختلف افراد ذاتی طور پر اکثر شیل کمپنیاں بھی استعمال کرتے ہیں‘ ابتدائی طور پر خاص جائیداد یا آپریشنز کے بغیر کاروبار کیا جاتا ہے تاکہ فنڈز کے حوالے سے ملکیت یا دیگر معلومات کو چھپایا جائے۔ جو لوگ اکاؤنٹس چھپانا چاہتے ہیں وہ پاناما‘ کیمن آئس لینڈ‘ برٹش ورجن آئس لینڈ اور برمودا جیسے ممالک میں اکاؤنٹس بناتے ہیں جہاں بینکنگ قوانین اکاؤنٹ رکھنے والے کی شناخت کو بھرپور انداز میں تحفظ دینے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاؤہ ساؤتھ پیسیفک میں آئس لینڈ آف مین آف بریٹین‘ ماکوا آف چائنا اور کوک آئس لینڈ جیسی ہیونز بھی شامل ہیں‘ سوئٹزرلینڈ‘ لیکسمبرگ اور موناکو جیسے بعض یورپی ممالک بھی جو لوگ ٹیکس سے بچنا چاہتے ہیں ان کیلئے جنت کے طور پر خدمات فراہم کرتی ہیں تاہم کئی ممالک ٹیکس میں رد و بدل کی روک تھام کیلئے بینکنگ قوانین سخت کرچکے ہیں۔قانون کے تحت آف شور کمپنی بنانا جرم نہیں اگر کمپنی کسی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو تاہم جن لوگوں نے ان کمپنیوں کو اپنے ملکوں میں ڈیکلیئر نہیں کیا انہیں قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پاکستان میں کمپنیوں کے مالکان کو ٹیکس سے متعلق اداروں اور سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں اپنے اثاثے ظاہر کرنے ہوتے ہیں اور اِس بارے میں قوانین و قواعد موجود ہیں۔ کاروباری حضرات‘ آف شور اسٹرکچر بین الاقوامی منصوبوں میں تیزی لانے میں مددگار ہوتے ہیں۔منی لانڈرنگ پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطابق آف شور مقامات پر کمپنیاں یا ٹرسٹ قانونی استعمال کیلئے بنائے جاسکتے ہیں جیسا کہ مالیات‘ انضمام اور اسٹیٹ یا ٹیکس کی منصوبہ بندی شامل ہے مزید یہ کہ امیر لوگ جو سیاسی طور پر عدم استحکام کے شکار ممالک میں رہتے ہیں۔ کرپشن یا جرائم کی انتہائی سرگرمی جیسا کہ اغوا یا بھتہ اور اپنے تحفظ کیلئے رازداری کی خاطر آف شور اکاؤنٹ استعمال کرسکتے ہیں اور ان معاملات میں ٹیکس چھپانا ضروری نہیں ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر سقاف ازہری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام