بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں حکومتی اراکین اور وزیراعلیٰ میں اختلافات کی اطلاعات ہیں جس کا فائدہ اُٹھانے کیلئے حزب اختلاف جلتی پر تیل ڈالنے جیسا کردار ادا کر رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بلوچستان میں حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد تیئس ہے جبکہ ناراض اراکین کا دعویٰ ہے کہ ان کی تعداد چودہ سے پندرہ ہے۔ اگر ناراض اراکین کی یہ تعداد برقرار رہتی ہے تو وزیر اعلیٰ کے خلاف نئے سرے سے تحریک عدم اعتماد یا ناراض اراکین کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے قرارداد لانے کی صورت میں اس کی حمایت کیلئے ناراض اراکین اور حزب اختلاف کے اراکین کی مجموعی تعداد سینتیس سے اڑتیس بنتی ہے جو کہ سادہ اکثریت سے زیادہ ہے۔ ناراض اراکین کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پاس ایوان میں اکثریت نہیں ہے لیکن انہیں یہ بات ایوان کے اندر ثابت کرنی پڑے گی۔ جہاں تک حکومتی اتحاد میں اکثریت کی بات ہے اکتالیس کے مقابلے میں ناراض اراکین کی تعداد پندرہ ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی اتحاد میں شامل اراکین کی اکثریت ان کے ساتھ ہے اس بنیاد پر ممکن ہے کہ وہ استعفیٰ نہ دیں اور ایسی صورتحال میں ناراض اراکین کو ایوان میں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وزیر اعلیٰ نے اکثریت کا اعتماد کھو دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے ناراض اراکین سے ملاقاتوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بعض ناراض اراکین کو منانے کا جو تاثر دیا جاتا رہا ہے‘ ناراض اراکین نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا ہے۔بلوچستان میں سیاسی محاذ آرائی کی صورتحال بگڑ رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف حکومتی اتحاد میں شامل ناراض اراکین نے پانچ اکتوبر کے روز اعلانیہ طور پر اپنی عددی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اِن کا دعویٰ ہے کہ حکومتی اتحاد میں ان کی مجموعی تعداد چودہ سے پندرہ ہے جبکہ بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد تیئس ہے۔ تجزیہ کاروں کی یہ رائے ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں اگر وزیر اعلیٰ کے خلاف کوئی تحریک آئی تو ناراض اراکین اور حزب اختلاف کی مشترکہ حمایت سے اس کے کامیابی امکانات ہیں۔ گذشتہ ماہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد بعض تیکنیکی وجوہات کی بنیاد پر بلوچستان اسمبلی پیش تو نہیں ہو سکی لیکن اب تجزیہ کاروں کے مطابق ان کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ناراض اراکین کی اعلانیہ بغاوت اور ان سے براہ راست استعفے نے ان کیلئے حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کے مقابلے میں بڑی مشکل کھڑی کر دی ہے۔اکثریتی پارٹی ہونے کے باعث بلوچستان میں مخلوط حکومت بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت میں قائم ہے۔ اس حکومت میں جو دیگر جماعتیں شامل ہیں ان میں تحریک انصاف‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی اور جمہوری وطن پارٹی شامل ہیں۔ پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے کیلئے جو ناراض اراکین پریس کانفرنس کرنے کیلئے آئے ان کی تعداد گیارہ تھی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ناراض اراکین نے وزیر اعلیٰ کو مستعفی ہونے کیلئے دو ہفتے کی مہلت کیوں دی تھی؟ اگرچہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف ان کی اپنی جماعت اور اتحادی جماعتوں کے بعض اراکین طویل عرصے سے ناراض تھے لیکن ستمبر کی وسط میں جب حزب اختلاف کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو وزیر اعلیٰ سے ناراض اراکین کا ایک گروپ بھی سامنے آ گیا۔ اِن ناراض اراکین کی جانب سے حمایت کی یقین دہانی پر ہی حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی کیونکہ اپنی عددی طاقت کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد کو منظور کروانا حزب اختلاف کیلئے ممکن نہیں تھا۔ چیئرمین سینیٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض دیگر اراکین نے ناراض اراکین سے مذاکرات کئے لیکن وہ جام کمال کے ساتھ چلنے پر کسی طرح آمادہ نہیں ہوئے۔ اگرچہ حزب اختلاف کی جانب سے لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد گورنر سیکرٹریٹ کی جانب سے لگائے جانے والے اعتراضات کے باعث پیش نہیں کی جا سکی تاہم ناراض اراکین نے حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت نہ کرنے کیلئے یہ شرط رکھ دی تھی کہ وزیر اعلیٰ پندرہ دن تک خود مستعفی ہو جائیں تاہم وزیر اعلیٰ اس مہلت کے دوران مستعفی تو نہیں ہوئے لیکن انہوں نے ناراض اراکین کو منانے کی کوششیں کیں۔ بلوچستان حکومت میں شامل اراکین کی مجموعی تعداد اکتالیس میں سے ستائیس وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی مجموعی تعداد پینسٹھ میں سے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے اراکین کی تعداد اکتالیس ہے۔ پینسٹھ کے ایوان میں وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کیلئے سادہ اکثریت کی ضرورت ہو گی‘ جو تینتیس بنتی ہے اور حزب اختلاف کے ساتھ مل کر ناراض اراکین وزیراعلیٰ کیلئے مشکل کھڑی کر سکتے ہیں لیکن ایسے کسی اقدام کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ اس وقت وطن عزیز کو جس طرح کے حالات پاکستان میں ہیں اور ملکی و بین الاقوامی چیلنجز درپیش ہیں تو ایسے میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے اور باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے قومی مفادات کا تحفظ کرنے کا وقت ہے اس لئے سیاست بعد میں بھی ہو سکتی ہے تاہم اختلافات کو اس موڑ پر نہیں پہنچانا چاہئے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو بلوچستان کئی حوالوں سے حساس صوبہ ہے اور بھارت کی ریشہ دوانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس لئے یہاں پر بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے اور کسی کو اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: شامیر داد بلوچ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام