پینڈورا پیپرز

پینڈورا پیپرز تاریک دنیا کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ ایک ایسی دنیا جس کے امرأ اپنی غیرقانونی اور ناجائز طریقوں سے حاصل کی گئی دولت کو آف شور کمپنیوں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ان لوگوں میں مختلف ممالک کے حاضر اور سابق رہنما بھی شامل ہیں۔ سینکڑوں پاکستانی شخصیات بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں کروڑوں ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ لیک ہونے والے ڈیٹا کے مطابق لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں پاکستانی پانچویں نمبر پر ہیں۔ اب یہ سوال تو اٹھتا ہی ہے کہ ان کے پاس اتنی دولت آئی کہاں سے۔ مسئلہ آف شور کمپنیوں کی قانونی حیثیت کا نہیں بلکہ خفیہ دولت اور مشکوک سودوں کو چھپانے کیلئے کھوکھلی کمپنیوں کے استعمال کا ہے۔ ٹیکس بچانے والی کمپنیوں کو غیر قانونی دولت محفوظ رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آف شور اثاثوں کا پہلی بار انکشاف نہیں ہوا۔ آف شور کے معاملے میں سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ چند برس قبل پاناما لیکس نے تیسری بار وزیرِاعظم بننے والے نواز شریف کو گھر بھیجنے کی راہ ہموار کی تھی مگر حالیہ انکشافات  بہت سے دوسری شخصیات کیلئے بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ وزیرِاعظم نے معاملے کی تحقیقات کیلئے وفاقی وزیرِ قانون کی سربراہی میں ’اعلیٰ سطح کا سیل‘ قائم کردیا ہے۔حالیہ لیکس میں شامل کچھ کیسز کی چھان بین قومی احتساب بیورو (نیب) کرے گی۔  اس سے قبل’پاناما گیٹ‘ پکارے جانے والے معاملے میں تمام تر تحقیقات کا مرکز نواز شریف اور ان کا خاندان رہا مگر ان لیکس میں جو دیگر تین سو نام سامنے آئے تھے ان کے خلاف تحقیقات  کا نتیجہ کیا سامنے آئے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا اور جس کا شدت سے انتظار بھی رہے گا۔ ان میں سے چند نام پینڈورا پیپرز میں بھی شامل  تھے۔ حالیہ لیکس میں شامل ڈیٹا زیادہ سنگین نوعیت کا ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ جائیداد کی خریداری کیلئے استعمال ہونے والی آف شور کمپنیوں کو غیر قانونی نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اصل مسئلہ غیر قانونی دولت کو چھپانے اور منی لانڈرنگ کیلئے ان کمپنیوں کا استعمال کیا جانا ہے۔ پینڈورا پیپرز میں شامل شخصیات کی دولت کے وسائل کی تحقیقات ہونا ضروری ہے۔ ہر ایک کو احتساب کے عمل سے گزارا جائے‘ چاہے کوئی کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو۔ پینڈورا پیپرز نے ان عالمی آف شور کمپنیوں کی تاریک مالیاتی دنیا کے حقائق سے پردہ فاش کیا ہے جن کا اکثر استعمال غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی گئی دولت چھپانے اور ٹیکس سے چھٹکارہ پانے کیلئے ہوتا ہے۔  ناجائز طریقوں سے کمائے گئے اربوں ڈالر انہی تاریک کھوکھلی کمپنیوں میں محفوظ کئے جاتے ہیں یقینا ان میں سے چند آف شور اثاثے ظاہر شدہ ہیں اور ان کا استعمال کاروباری مقاصد کیلئے ہوتا ہے مگر جو لوگ  ایسا کرتے ہیں ان کا سخت احتساب ہونا چاہئے اس کے علاؤہ احتساب کے عمل کو زیادہ مؤثر اور غیر جانبدار بنانے کی بھی ضرورت ہے۔۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)