پہلی بات: سال 2019ء میں تحریک انصاف نے سماجی تحفظ کیلئے 190 ارب روپے مختص کئے۔ گزشتہ 3 برس کے دوران تحریک انصاف حکومت نے 675 ارب روپے سماجی تحفظ کیلئے مختص کئے ہیں۔ نواز لیگی حکومت سالانہ 2 ارب روپے سماجی تحفظ کے منصوبوں پر خرچ کرتی تھی۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سماجی تحفظ پر 4 ارب روپے خرچ کئے جاتے تھے۔ یہ کس قدر غیرمعمولی بات ہے اِس کا اندازہ تحریک انصاف اور نواز لیگی حکومت کے ادوار کے موازنے سے لگایا جاسکتا ہے جب نواز لیگ نے 5 سال میں 10 ارب روپے جبکہ تحریک انصاف تین سال میں 675 ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں تحریک انصاف ایسی واحد حکمراں جماعت ہے جس نے سماجی تحفظ اور سماجی بہبود کے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے اور معاشرے کے غریب طبقات کو عملاً سہارا دیا ہے۔دوسری بات: رواں برس بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر 29 ارب ڈالر رہیں جبکہ سال2018ء میں ترسیلات زر کا حجم 22 ارب ڈالر تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف کے 3 سالہ دور میں ترسیلات زر کے حجم میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔ اگست 2021ء میں 922 ملین (35فیصد) ترسیلات زر امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک سے آئیں۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے مجموعی طور پر 694 ملین ڈالر بھیجے گئے جو کل ترسیلات زر کا 26 فیصد ہیں۔تیسری بات: تحریک انصاف کے دور حکومت میں عالمی بینک نے پاکستان کی اُس درجہ بندی میں اضافہ کیا ہے جو یہاں کاروبار (سرمایہ کاری) کرنے کیلئے آسانیوں سے متعلق ہے۔ تحریک انصاف نے کاروبار اور سرمایہ کاری کرنے عمل کو آسان بنایا جس کا عالمی بینک نے اعتراف کیا ہے۔ قبل ازیں کاروباری آسانیوں کے لحاظ سے 190 ممالک کی فہرست میں پاکستان 39ویں نمبر پر تھا۔ یہ صورتحال نہایت ہی خوش آئند ہے کہ حکومت نے محاصل (ٹیکسوں) کی ادائیگی کے نظام کو آن لائن کرنے کے علاوہ معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے ٹیکس کے نظام کو آسان بنایا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کسی تعمیراتی کمپنی کو حکومت سے رجسٹریشن اور اجازت نامہ حاصل کرنے میں زیادہ سے زیادہ 100 دن لگتے ہیں جبکہ ماضی میں اِس سے زیادہ دن لگتے تھے۔چوتھی بات: سال 1960ء کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے امریکی ڈالر کا شرح تبادلہ 4 روپے 76 پیسے تھا۔ اُس وقت پاکستانی اور بھارتی روپے کی قدر ایک جیسی تھی اور بھارتی روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر بھی 4.76 روپے تھی۔ 1996ء میں پاکستانی اور بھارتی روپے کی قدر میں گراوٹ آئی لیکن 1996ء کے بعد سے پاکستانی روپے کی قدر بھارتی روپے کے مقابلے زیادہ تیزی سے کم ہوئی۔ سال 2008ء سے 2013ء کے درمیان جبکہ پیپلزپارٹی کی حکومت تھی‘ اِس عرصے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مجموعی طور پر 20 فیصد کمی ہوئی۔ سال 2013ء سے 2018ء کے درمیان جب نواز لیگ کی حکومت تھی تو اِس دوران پاکستانی روپے کی قدر میں چھبیس فیصد کی کمی ہوئی اور یہ 98 روپے فی ڈالر سے 123 روپے فی ڈالر تک جا پہنچی۔37 مہینے پہلے تحریک انصاف نے حکومت قائم تھی تب سے روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور یہ 173 روپے جیسی تاریخ کی کم ترین سطح پر جا پہنچا ہے۔ مجموعی طور پر تحریک انصاف کے دور حکومت میں ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں 40فیصد کمی ہوئی ہے یعنی ہر ماہ اوسطاً ایک فیصد روپے کی قدر کم ہوئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِس عرصے کے دوران بھارت کا روپیہ ڈالر کے مقابلے مستحکم رہا ہے اور آج بھی بھارت میں روپے کا شرح تبادلہ 47 روپے ہے۔پانچویں بات: سال 2008ء اور سال 2013ء میں جبکہ پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اُس وقت ڈیزل کی قیمت 44 روپے سے بڑھا کر 110 روپے کی گئی۔ سال 2018ء اور 2021ء کے درمیانی عرصے میں جبکہ تحریک انصاف کی حکومت رہی اِس میں ڈیزل کی قیمت 113سے بڑھا کر 120 روپے فی لیٹر کی گئی اور اگرچہ یہ پاکستان کی تاریخ میں فی لیٹر ڈیزل کی سب سے زیادہ (بلندترین قیمت) ہے لیکن تحریک انصاف کے دور میں ڈیزل کی قیمت پیپلزپارٹی کے مقابلے آہستہ بڑھی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ فی الوقت پیٹرول کی قیمت 127 روپے فی لیٹر ہے جو پاکستان کی تاریخ میں پیٹرول کی بلند ترین قیمت ہے۔چھٹی بات: ہر پاکستانی سالانہ اوسط سے 115 کلوگرام گندم کا آٹا استعمال کرتا ہے۔ سال 2018ء میں گندم کا آٹا 35 روپے فی کلوگرام فروخت ہو تھا جس کا مطلب ہے کہ 21 کروڑ سے زیادہ پاکستانی سالانہ 853 ارب روپے کا آٹا استعمال کر رہے تھے۔ سال 2021ء میں گندم کے آٹے کی فی کلوگرام قیمت 70 روپے ہے جس کا مطلب ہے پاکستانی قوم ایک سال میں 1700 ارب روپے کا آٹا استعمال کر رہی ہے اور یہ قیمت کے لحاظ سے آٹے کی بلند ترین قیمت ہے۔ساتویں بات: سال 2008ء میں ہر پاکستانی کے ذمے واجب الادأ قرض کی مالیت 36 ہزار روپے تھی۔ سال 2013ء میں جب پیپلزپارٹی برسراقتدار تھی تو قومی قرض میں اضافہ ہوا اور ہر پاکستانی 88 ہزار روپے کا مقروض ہو گیا۔ سال 2018ء (نواز لیگی دور) کے اختتام تک ہر پاکستانی 1لاکھ 45 ہزار روپے کا مقروض تھا۔ سال 2018ء سے 2021ء کے درمیان ہر پاکستان کے ذمے قرض بڑھ کر 2 لاکھ 18 ہزار روپے ہوگیا اور یہ تاریخ میں قومی قرض کے حوالے سے بلند ترین شرح ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں ادویات کی قیمتیں‘ ٹماٹر‘ انڈے‘ آلو‘ پیاز‘ گھی‘ چھوٹا بڑا گوشت اور دودھ کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن اُس کا ذکر نہ بھی کریں تو مہنگائی کے اثرات اوّل الذکر شعبوں میں نمایاں ہیں‘ جس کی وجہ سے پہلے زیادہ لوگوں کو سماجی تحفظ کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)