پاکستان کی جوہری صلاحیت کو عروج تک پہنچانے میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔ وہ حقیقی معنوں میں محسنِ ِپاکستان تھے اور انہوں نے ملک کی خدمت کیلئے اپنے ذاتی مفادات کو قربان کر کے ثابت کیا وہ حقیقی محب وطن تھے۔ زندگی کی پچاسی بہاریں دیکھنے کے بعد اُن کا انتقال بیماری کے باعث ہوا۔ شک و شبے سے بالاتر ہے کہ اگر ڈاکٹر قدیر پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا نہ کرتے تو آج پاکستان کا دفاع جس قدر محفوظ ہے‘ وہ ایسا نہ ہوتا اور نہ ہی پاکستان کو اسلامی ممالک کے دفاعی فوج کی سربراہی ملتی۔ اس نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نہ صرف پاکستان کی بقا اور استحکام کیلئے کام کیا بلکہ خطے میں قیام ِ امن اور طاقت کے توازن کو قائم کرنے کیلئے بھی ایسی جدوجہد کی جس کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ ڈاکٹر قدیر خان کی خدمات کے صلے کے طور پر قوم نے انہیں بے پناہ محبت اور عقیدت سے نوازا۔ قوم کی ان سے محبت اور وابستگی کا ثبوت سوشل میڈیا سے بھی ملتا ہے جہاں ان کی وفات کی خبر ملتے ہی لوگوں نے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے مختلف طرح کے اظہاریئے لکھنے اور پوسٹس شیئر کرنا شروع کیں اور یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔ لوگوں نے جہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر خراج ِعقیدت پیش کیا وہیں ماضی کے کچھ ناخوشگوار واقعات کی بنیاد پر حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نمازِ جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ ڈاکٹر الغزالی نے پڑھائی اِس موقع پر عوام کا جم غفیر فیصل مسجد میں موجود تھا جنہوں نے خراب موسم اور تیز بارش کے باوجود ڈاکٹر قدیر کو الوداع کرنے کیلئے حاضری دی۔ اِس قومی ہیرو کو سرکاری اعزاز کے ساتھ اور اہل خانہ کی خواہش کے مطابق‘ ایچ ایٹ قبرستان میں دفن کیا گیا جبکہ اس موقع پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ڈاکٹر قدیر چھبیس اگست دوہزاراکیس کے روز ہسپتال منتقل کئے گئے۔ آپ کورونا وبا سے متاثر تھے جس کی وجہ سے آپ کی حالت اچانک بگڑ گئی تھی۔ انہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری ہسپتال میں بھی داخل کیا گیا جہاں ان کی طبیعت سنبھلنے لگی تو انہیں واپس گھر منتقل کر دیا گیا۔ گیارہ ستمبر کو جاری کردہ ویڈیو پیغام کے ذریعے انہوں نے قوم کو بتایا کہ وہ صحت یاب ہو چکے ہیں تاہم انہیں طبیعت خراب ہونے پر دس اکتوبر کی صبح دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ان کی وفات پر حکومتی شخصیات اور سیاست دانوں کے علاؤہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے غم کا اظہار کیا۔اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر بے حد افسردہ ہوں۔ ہمیں ایک جوہری اسلحے سے لیس ریاست بنانے میں ان کے اہم کردار کے باعث قوم انہیں محبوب رکھتی تھی۔ ان کی اس خدمت نے ہمیں خود سے بہت بڑے ایک جارحیت پسند اور جوہری ہمسائے سے محفوظ بنایا۔ عوامِ پاکستان کیلئے ان کی حیثیت قومی ہیرو کی سی تھی۔ ٹوئیٹر ہی کے ذریعے صدر مملکت عارف علوی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات کا جان کر دکھ ہوا۔ میں انہیں ذاتی طور پر 1982ء سے جانتا ہوں۔ انہوں نے ہمیں قوم کی حفاظت کیلئے جوہری اہلیت حاصل کرنے میں مدد دی اور قوم اس حوالے سے ان کی خدمات کبھی بھی نہیں بھولے گی۔ اللہ ان پر رحمت نازل کرے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور تمام سروسیز چیفس نے بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ 1974ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر رابطوں کے بعد 1976ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان واپس پاکستان آئے اور اکتیس مئی 1976ء کو انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاالحق نے تبدیل کر کے ان کے نام پر ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک اس پروگرام کے سربراہ رہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کی ملک و قوم کیلئے خدمات کے اعتراف کے طور پر دو مرتبہ ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ امتیاز دیا گیا۔ پہلی بار انہیں یہ اعزاز چودہ اگست 1996ء کو صدر فاروق لغاری نے دیا اور پھر اٹھائیس مئی 1998ء کو بلوچستان کے شہر چاغی میں کیے جانے والے جوہری دھماکوں کے بعد اگلے برس یعنی 1999ء میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے انہیں اس اعزاز سے نوازا۔ قبل ازیں 1989ء میں انہیں ہلالِ امتیاز کے اعلیٰ سول اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: سیّد رافع رضوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)