چین بھارت تعلقات اور بات چیت

بھارت اور چین کے درمیان متنازع سرحدی علاقے میں کشیدگی کم کرنے کیلئے ہونے والے مذاکرات ایک بار پھر ناکام ہوگئے ہیں اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو اس کا قصوروار قرار دیا ہے۔ دس اکتوبر کو دونوں ملکوں کے اعلیٰ فوجی حکام نے تصدیق کی کہ دو ماہ بعد مذاکرات کا یہ پہلا اجلاس بغیر کسی پیشرفت کے ختم ہوا۔ چین نے اس کی وجہ بھارت کے ’نامناسب اور غیر حقیقی مطالبات‘ کو قرار دیا جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے ’تعمیری مشوروں سے اتفاق نہیں کیا‘ اور یہ کہ اس نے ’کوئی ایسی متبادل تجویز بھی پیش نہیں کی۔‘ بھارت اور چین کے درمیان لداخ کے ہاٹ سپرنگ سیکٹر میں ایل اے سی سے فوجیں پیچھے ہٹانے کے سوال پر مذاکرات ناکام ہونے کے بعد چین نے کہا ہے کہ بھارت کے رویئے سے خطے میں نئے ٹکراؤ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ مذکورہ بات چیت لداخ کے مولڈو چوشل میٹنگ پوائنٹ پر دونوں افواج کے کور کمانڈروں کے درمیان قریب نو گھنٹے تک رہی۔ چین کے اخبار گلوبل ٹائمز نے پیپلز لبریشن آرمی کی مغربی کمان کے ایک بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں بھارت کے مطالبات کو ’نامعقول اور غیرحقیقت پسندانہ‘ قرار دیا گیا۔ اس میں ارونا چل پردیش میں حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقعے کا بھی ذکر ہے۔ اس تحریر میں چین کے دفاعی ماہرین نے ”انڈیا سے نئے ٹکراؤ کے خطرے“ کی وارننگ دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ ”چین کو مذاکرات میں نہ صرف بھارت کے مغرور مطالبات مسترد کر دینے چاہیئں بلکہ بھارت کی فوج کی طرف سے نئی جارحیت کا دفاع کرنے کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے۔‘چین اور بھارت کے تعلقات کے پہلوؤں اور دونوں ملکوں کی افواج کی صورتحال کے مدنظر چین نے سرحدی کشیدگی کو ختم کرنے کی بے انتہا کوشش کی اور اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ ڈیڑھ برس قبل لداخ خطے کی گلوان وادی میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان خونریز ٹکراؤ ہوا تھا اور کئی علاقوں میں چینی افواج کی پیشرفت ہوئی۔ اب بھارت چینی فوجیوں کی پرانی پوزیشن پر واپسی کیلئے بات چیت کر رہا ہے۔ اس حوالے سے اب تک تیرہ بار مذاکرات کیلئے اجلاس ہو چکے ہیں۔چینی فوج پینگونگ سو جھیل اور بعض دوسرے مقامات سے پیچھے ہٹ گئی ہے لیکن عسکری اہمیت کے حامل ڈپیسانگ پلین‘ ڈیمچوک‘ ہاٹ سپرنگ اور کئی دیگر علاقوں میں وہ اب بھی پورے جنگی ساز و سامان کے ساتھ موجود ہے۔ ایل اے سی کے دونوں جانب بھارت اور چین کے ہزاروں فوجی گذشتہ برس کے ٹکراؤ کے بعد سرحدی علاقے میں تعینات ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ صرف چین یکطرفہ طور پر قدم اٹھائے۔ چین صورتحال کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ دونوں ممالک برابر کے اقدامات کریں لیکن اب چین کا صبر ٹوٹ چکا ہے۔ اب اسے بھارت کی مغرور سوچ کو توڑنا ہو گا۔ دہلی میں بھارتی فوج کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں افواج کی بات چیت میں تصفیہ طلب معاملوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ ’بھارتی مندوبین نے چینی فریق کو بتایا کہ ایل اے سی پر جو موجودہ صورتحال ہے وہ چین کے ذریعے باہمی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرحدی لائن کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش سے پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے یہ لازم ہے کہ چین باقی ماندہ علاقوں میں بھی مناسب قدم اٹھا کر مغربی سیکٹر میں ایل اے سی پر امن بحال کرے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈین فوجی مندوبین نے مذاکرات میں باقی جگہوں کے سوالوں کو حل کرنے کیلئے ’تعمیری مشورے‘ دیئے لیکن چینی مندوبین نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور نہ ہی اس کی جگہ کوئی متبادل تجویز پیش کی۔ اس لئے مذکورہ میٹنگ میں باقی ماندہ علاقوں کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ مذاکرات میں بھارت کی قیادت لداخ خطے کے کور کمانڈر لفٹیننٹ جنرل پی جی کے مینن کر رہے تھے جبکہ چین کی جانب سے شینجیانگ ملٹری خطے کے کمانڈر میجر جنرل لیو لین نے بات چیت کی۔ یہ مذکرات ایک ایسے وقت میں ہوئے جب محض دو روز قبل انڈین میڈیا نے انڈین فوج کے ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ ملک کے شمال مشرقی خطے اروناچل پردیش میں ایک ہفتے پہلے بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا۔ اس کے تحت چینی فوجی گشت کرتے کرتے بھارتی خطے میں داخل ہو گئے تھے۔ بعض خبروں میں بتایا گیا تھا کہ انڈین فوج نے مبینہ طور پر بعض چینی فوجیوں کو کچھ دیر تک پکڑ کر رکھا تھا تاہم چینی میڈیا میں بھارت کی ان خبروں کو ’افواہ‘ قرار دیا۔ چینی فوج کے حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چینی افواج اٹھائیس ستمبر کو چین اور بھارت کی سرحد پر ڈانگ زہانگ خطے میں معمول کی گشت پر نکلی تھی کہ انہیں انڈین فوج کی جانب سے ’نامناسب رکاوٹ کا سامنا ہوا۔ چینی افسروں اور فوجیوں نے سختی سے جوابی قدم اٹھایا اور اپنی گشتی مہم پوری کر کے واپس آگئے۔‘ بھارتی میڈیا میں فوج کے ذرائع سے بتایا گیا تھا کہ اروناچل پردیش کے توانگ خطے میں چینی فوجیوں نے بھارت خطے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ بھارتی فوجیوں سے ان کی ہاتھا پائی ہوئی اور انہوں نے چینی فوجیوں کو واپس پیچھے دھکیل دیا۔ چین اور بھارت کے درمیان جاری تنازعات کا حل خطے میں پائی جانے والی تشویش کا حل بھی ثابت ہو سکتا ہے تاہم بھارت کی جانب سے جس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تنازعات جلد ہونے کی اُمید کم دکھائی دے رہی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر اشرف نسیم۔ ترجمہ: ابواَلحسن امام)