پاکستان نے افغان جنگ میں صف اول کے اتحادی کے طور پر امریکہ کا ساتھ دیا جس کی بھاری قیمت امن و امان کی داخلی صورتحال میں خرابی کی صورت برداشت کرنا پڑی اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں مارے گئے جبکہ ملکی معیشت کا الگ سے کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا لیکن امریکہ نے ’طوطا چشمی‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے کئے گئے معاشی بحالی اور نقصانات کے ازالے کا وعدہ پورا نہیں کیا بلکہ پاکستان سے دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو خطے میں بالادست بنایا گیا‘ جس نے پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشیں کیں اور اِس سلسلے میں بطور خاص افغان سرزمین اور وسائل کا استعمال ہوا۔ اس پر مستزاد یہ کہ خود امریکہ بھی ڈومور کے تقاضے کرتے ہوئے ہماری سلامتی کو چیلنج کرتا اور ڈورون حملوں کے ذریعے ہماری دھرتی ادھیڑتا اور بے گناہ شہریوں کا خون بہاتا رہا۔ چنانچہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی جیسی یک طرفہ پرخلوص سوچ نے پاکستان کو افغانستان سے دور کر دیا اور وہ پاکستان کو اپنا دشمن سمجھنے لگااب جبکہ امریکہ نے اپنی رعونت کا انجام افغانستان میں شکست کی صورت چکھ لیا ہے اور اِس کی خودغرضی پر مبنی پالیسیوں کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود اِسے افغانستان سے واپس جانا پڑا ہے اور طالبان ایک حقیقت کے طور پر دوبارہ ابھر کر افغانستان میں غالب آچکے ہیں جنہیں بالاخر عالمی برادری کو تسلیم کرنا پڑیگا۔ اِس تبدیل شدہ منظرنامے میں اگر پاکستان افغان صورتحال میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی والا کردار برقرار رکھتا ہے اور امریکہ کی خاطر خطے کے دیگر ممالک کی ناراضگی مول لی جاتی ہے تو لامحالہ افغان طالبان حکومت کی جانب سے بھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نہیں آئیں گے اور دیگر ممالک بالخصوص چین اور روس کی بھی پاکستان کے ساتھ بداعتمادی بڑھے گی چنانچہ خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کا پاکستان کے پاس یہی وقت ہے اور طالبان کے زیر اثر افغانستان میں بحال ہوتے امن سے اپنے امن و سلامتی سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس تناظر میں وزیر اعظم عمران خاں کی سوچ نہ صرف مثبت اور حقائق پرمبنی ہے بلکہ ہماری قومی خارجہ پالیسی سے بھی ہم آہنگ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیفوں نے طالبان کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی برقرار رکھی تو دنیا جنگ و جدل کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گی جس میں افغان دھرتی تو بدامنی کی بھینٹ چڑھے گی ہی‘ خطے اور اقوام عالم کو بھی علاقائی اور عالمی تباہی سے بچانا ممکن نہیں رہے گا۔ پاکستان کو اب بہرصورت امریکی مفادات کی جنگ سے باہر نکلنا ہے جس کا وزیراعظم عمران خاں نے مثبت عندیہ بھی دے دیا ہے اس لئے ہم طالبان کے ساتھ مزید کسی مناقشت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں بہرصورت اپنی آزادی اور خودمختاری عزیز ہے۔ امریکہ نہ پہلے کسی مشکل گھڑی میں ہماری کمک کو آیا اور نہ آئندہ اس سے اس معاملہ میں کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت ہمسایہ ممالک کی خواہش ہے۔ داعش سے چھٹکارے کیلئے طالبان بہترین اور واحد آپشن ہیں‘ انہیں تنہا کرنے اور پابندیاں عائد کرنے سے افراتفری اور انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے جبکہ اس افراتفری سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہو گا۔ ”مڈل ایسٹ آئی“ نامے جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ دنیا کو افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے۔ اگر افغانستان کو دور کیا گیا تو معاملات پھر بیس سال پرانے طالبان کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیں جو ایک بڑی تباہی ہو گی اور افغانستان داعش جیسے دہشت گردوں کیلئے زرخیز زمین بن جائے گا۔
(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عبداللہ رحمت نعیم ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)