نئی نسل کے بزرگوں سے رویئے ایسے ہیں کہ اکثر اِن کی باتوں پر نہ تو دھیان دیا جاتا ہے اور نہ ہی اِن کی جانب سے بار بار طلب کرنے کی تعمیل کی جاتی ہے۔ تعلیم اور معاشرت نے ہمیں آداب سے دور اور انٹرنیٹ پر منحصر ایسی ایجادات کے نزدیک کر دیا ہے جس کے جذبات و احساسات نہیں ہوتے۔ گردوپیش پر غور کریں کہ کس طرح زمان و مکان کی ناقابلِ عبور گہری رکاوٹوں کے باعث ایک دوری سی حائل ہے اور ہم انہیں ایک ایسی کھائی میں اترتے دیکھتے ہیں جہاں رابطے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ عالمی شہرت اور ادب کے انعام یافتہ جو ”ماو ڈن لٹریری پرائز (Mao Dun Literary Prize)“ کے بھی فاتح ہیں ژو ڈاکسن (Zhou Daxin) بڑھتی عمر کے نقصانات پر مبنی اپنی کتاب دی سکائی گٹ ڈارک سلولی میں خبردار کرتے ہیں کہ ساٹھ برس کی عمر کے بعد آسمان پراسرار طریقے سے سیاہ تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ روشنی ماند پڑنا شروع ہوجاتی ہے پھر آپ ٹھیک اسی طرح بستر پر لیٹ جاتے ہیں جس طرح آپ اپنی پیدائش کے بعد بستر پر لٹائے گئے تھے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ پیش آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے ژو کے بیان کردہ انتباہات‘ تفصیلات اور تجاویز دراصل وہ حالات و واقعات ہیں جن کا ہم سب کو زندگی میں سامنا کرنا ہوتا ہے۔ وہ بڑی حساسیت کے ساتھ بڑی عمر اور عمر رسیدگی کی پیچیدہ‘ پوشیدہ اور جذباتی جہانوں کو کھنگالتے ہیں۔ بڑھتی عمر ضروری نہیں کہ ہمیشہ اپنے ساتھ بیماری بھی لائے نہ ہی اسے بوجھ کے طور پر لینا چاہئے کہ جب خاندان والے گھر کے کسی متحرک فرد کو دھیرے دھیرے الگ تھلگ سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ٹوٹی ہڈیوں‘ دکھتے جوڑ اور سستی و کاہلی کے امکانات کے علاوہ ژو نے تنہائی‘ عدم توجہی‘ محبت کے جذبات سے محرومی‘ دوسروں کی محبت اور چاہت سے محرومی اور ضروریات اور خواہشات کو ایک طرف رکھ دینے سے بھی خبردار کیا ہے کیونکہ عمر رسیدگی کی خاموشی گمراہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ زندگی میں ایسا وقت بھی آئے گا جب ہمیں ممتا کی ضرورت ہوگی مگر ہمیں بانہوں میں لینے یا بہلا کر کھلانے اور پلانے کے لئے ماں نہیں مل سکے گی۔ ژو نے اس حالت سے نمٹنے کے لئے بوڑھے بالغوں کی نگہداشت کی طبی اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔ اب تک انسانی معاشرے میں بزرگوں کی نگہداشت قریبی رشتہ داروں کا فریضہ بنی ہوئی ہے۔ اہلِ خانہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن بدلتی سماجی آبادیت اور مدت ِحیات کے ساتھ اب بزرگوں کے لئے ایک باقاعدہ پیشہ ورانہ نگہداشت کو متعارف کروانا ضروری ہوگیا ہے اور اِسی سلسلے میں پاکستان میں طب کی اعلیٰ تعلیم سی پی ایس پی میں خصوصی نگہداشت کو متعارف کروایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی طبی کمیونٹی کو نہایت اہم گردانتی ہے۔ سی پی ایس پی کے تربیت یافتہ ماہرین کو عمر رسیدہ بالغان کو درپیش ان مختلف مسائل میں مدد کی غرض سے تربیت فراہم کی جاتی ہے جن کا اظہار اکثر عمر رسیدہ افراد نہیں کرپاتے اور جس کی وجہ سے وہ مسائل نظر انداز ہوجاتے ہیں۔جب کوئی شخص ذیابیطس (شوگر) یا سینے کے انفیکشن جیسے کئی مختلف مسائل کا سامنا کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت ہر مسئلے کو الگ طریقے اور پوری حساسیت سے نمٹنا ضروری ہوتا ہے اس لئے خصوصی مہارت اور اعتماد سازی نگہداشت کے بنیادی جزو بن جاتے ہیں۔ اب تک کسی بھی پاکستانی طبی ادارے میں معمر افراد کی نگہداشت کو مضمون کی حیثیت نہیں دی گئی چونکہ عمر رسیدہ افراد کی نگہداشت ثقافتی اصول اور مذہبی فریضہ تصور کیا جاتا ہے لہٰذا اس کے لئے مطلوب پیشہ ورانہ مہارت کی ضرورت کو بھی محسوس نہیں کیا جاتا۔ ایک عام اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی کے صرف دس فیصد حصے کو معمر افراد کی نگہداشت مطلوب ہے لیکن اِس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے پوسٹ گریجویٹ امتحانات میں اس مہارت کے بارے میں صرف خانہ پری کے طور پر سوالات شامل کئے جاتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں اسے ایک سپیشلٹی کے طور پر نہیں لیا جاتا اور نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ (دوسری طرف) برطانیہ میں بنیادی طبی کورسز کی تکمیل کے بعد طبی پیشہ وروں کو چھ ماہ کی روٹیشن پالیسی کے ذریعے معمرافراد کی نگہداشت کا تجربہ کروایا جاتا ہے۔ معمر افراد کی نرسنگ کے ذریعے جسمانی امراض اور ادویات کی عمومی نگرانی پر توجہ دی جاسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ نفسیاتی اعتبار سے بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ جسم کے اعضا ء اپنی صلاحیت کی آخری حد پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور ہر فرد پر ادویات کا ردعمل مختلف ہوسکتا ہے۔ ہم طبی مسائل کے بارے میں معلومات کے پھیلاؤ کے لئے میڈیا کا استعمال کرتے ہیں مگر عمر رسیدہ افراد کی ذاتی اور عوامی ضروریات کے بارے میں بات نہیں کرتا۔ آنے والے برسوں میں عمر رسیدہ افراد کے مختلف طبی مسائل کے لئے جامع شعبے کے طور پر اہمیت ملے گی اور اس حوالے سے عوامی آگاہی بھی بڑھے گی۔ پاکستانی ڈاکٹرز اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جتنا ضروری یہ معاملہ ہے کہ دادی اور ان کے ہم عمروں کے معیارِ زندگی کو بہتر اور خوشحال بنانے کے لئے کیا کرنا چاہئے بالکل اسی طرح یہ بھی اہم معاملہ ہے کہ یہ کیسے کرنا چاہئے۔ وہیل چیئر پر پوری احتیاط سے بٹھانے یا طویل وقت بستر پر سونے کے باعث ہونے والے زخموں سے بچانے کے لئے انہیں کروٹ بدلنے میں مدد کرنے یا کپڑے بدلتے وقت سانس لینے میں کسی قسم کی تکلیف پر محتاط نظر رکھنے‘ کبھی کبھار ان کی طرف دیکھ کر مسکرا دینے یا محبت بھرا اشارہ کرنے سے ان کی طبیعت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کی پسندیدہ خوشبو کا چھڑکاؤ اور سانس لینے میں آسانی پیدا کرنے کے لئے نیبولائز کرنا بھلے ہی چھوٹے کام ہیں لیکن جس شخص کا خیال رکھا جا رہا ہے اور جو خیال رکھ رہا ہے‘ یہ سب کام دونوں کو ہی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ لائق توجہ اور مقام تفکر ہے کہ اگر عمر رسیدہ افراد کو گھروں میں مناسب توجہ اور نگہداشت ملے اور انہیں تھوڑی بہت ہمدردی بھی دی جائے تو کیا ایسے معمر افراد کو اجنبیوں کے حوالے کرکے مخصوص گھروں میں پناہ لینے کی ضرورت ہو گی؟ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: نائلہ داؤد۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)