پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجوں اور ملک کی سلامتی سے متعلق معاملات سے عہدہ برأ ہونے کے لئے ملک کی سول اور عسکری قیادتوں میں مکمل ہم آہنگی اور اتفاق رائے کی فضا استوار ہے جبکہ عسکری قیادتیں فی الواقع آئین پاکستان اور اس کے ماتحت قائم منتخب جمہوری پارلیمانی نظام کے ساتھ کھڑی ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ متعدد مواقع پر جمہوریت اور آئین کے تحفظ کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ قبل حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین سمیت پارلیمانی جماعتوں کے عہدے داروں کے ساتھ مشاورتی نشست میں دوٹوک الفاظ میں باور کرایا تھا کہ سیاسی معاملات سے کلی طور پر سیاستدانوں نے ہی عہدہ برأ ہونا ہے اس لئے وہ اپنی سیاست میں فوج کو بیچ میں لائیں نہ اس پر کسی قسم کا ملبہ ڈالیں۔جنرل مشرف کے دور میں بحال ہونے والی جمہوریت نے جڑیں پکڑنا شروع کیں اور عدلیہ کی فعالیت اور حکومتی و اپوزیشن سیاستدانوں کی باہمی کھینچا تانی اور محاذ آرائی کی سیاست میں جمہوریت کا مردہ خراب کرنے والے ماورائے آئین اقدامات کی فضا سازگار ہونے کے باوجود جنرل مشرف کے بعد آرمی چیف کے منصب پر فائز ہونے والے جنرل کیانی نے آئین و جمہوریت کی پاسداری اور عساکر پاکستان کو سیاسی معاملات سے لاتعلق رکھنے کا عزم باندھ لیا۔ اس طرح سال دوہزاردو سے اب تک عام انتخابات کے عمل سے تشکیل پانے والی ہر اسمبلی نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی ہے۔ اس تناظر میں موجودہ اسمبلی بھی سول اور عسکری قیادتوں کے مابین مثالی یک جہتی کی فضا میں اپنی پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرتی نظر آتی ہے جس کی میعاد کے تین سال گزر چکے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت اور قیادت نے چونکہ بدعنوانی سے پاک معاشرے اور نظام حکومت کی تشکیل کا عزم باندھ رکھا ہے جس کیلئے اسے قومی احتساب بیورو (نیب)‘ عدلیہ اور عساکر پاکستان سمیت تمام ریاستی اداروں اور انتظامی مشینری کی معاونت حاصل ہے چنانچہ احتساب کا عمل بھی نتیجہ خیز ثابت ہو رہا ہے جس کی زد میں آ کر قید اور نااہلیت کی سزائیں پانے اور مقدمات بھگتنے والے بالخصوص اپوزیشن کے سیاستدانوں نے نیب کے مقدمات کو انتقامی سیاسی کاروائیوں کا نام دے کر حکومت کو بھی رگیدنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اسی حکمت ِعملی کے تحت سول اور عسکری قیادتوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی ناکام کوششیں کیں‘ سول اور عسکری قیادتوں میں کسی قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہونے کے خواہش مند عناصر اور حکومتی مخالفین کو یقینا مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے سے میڈیا پر بھی یہ قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حساس قومی معاملات پر منفی رائے زنی اور سنسنی خیزی پیدا کرنے سے گریز کریں کیونکہ ہماری سلامتی کے درپے دشمن ہماری کسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے ایسے ہی مواقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ وزیر اعظم کی وضاحت کے بعداب ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے معاملہ پر بحث و تمحیص اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم ہو جانا چاہئے۔ پاکستان کی داخلی و خارجہ سلامتی کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے حساس اداروں اور عہدوں پر تعیناتیوں کے بارے غیرمحتاط اور سیاسی بیان بازی سے گریز کرتے ہوئے اِس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے دشمن ایک ایسا تاثر عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے پاکستان کی سلامتی کے ضامن ادارے کمزور ہوں اور یقینا کوئی بھی محب وطن پاکستانی ایسی سازشوں کا حصہ بننا نہیں چاہے گا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ہمایوں فاخر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام