افغان قیام امن اور وسط ایشیا

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلأ اعلان سے ایک دن قبل یعنی تیس اگست کے روز مکمل ہوا تاہم امریکہ نے افغانستان پر اپنے دفاعی وسائل سے نظر رکھی ہوئی ہے اور یہ بات خطے کے ممالک بالخصوص روس کیلئے ناقابل قبول ہے جس کے نائب وزیرِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”روس وسطی ایشیائی ممالک کے آس پاس منڈلاتے ہوئی امریکی فوج کی موجودگی سے خوش نہیں۔“ روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے روس کے دورے پر آئی ہوئی امریکی انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ وکٹوریہ نولینڈ کے ساتھ ملاقات میں بھی وسطی ایشیائی ممالک کی تشویش سے اُنہیں آگا کیا اور خطے سے امریکی افواج کی موجودگی‘ آکس کے قیام اور یورپ میں میزائلوں کی تنصیب جیسے امور کے حوالے سے بات چیت کی۔ روس کے ذرائع ابلاغ کے مطابق سرگئی ریابکوف نے امریکہ کے سیاسی و عسکری فیصلہ سازوں تک یہ بات پہنچائی ہے کہ ”روس نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ وسط ایشیائی ممالک میں امریکی فوج کی موجودگی روس کیلئے قابل قبول نہیں۔“ روس چاہتا ہے کہ امریکہ دنیا پر حکمرانی کے اپنے خواب کی تکمیل اور جنگیں مسلط کرنے کیلئے ہمہ وقت تخریبی ذہنیت کو ترک کرے لیکن امریکہ کی کوشش ہے کہ اگرچہ اُس کے پاؤں افغانستان سے اکھڑ گئے ہیں لیکن وہ افغانستان سے نامراد واپسی کے بعد خطے میں ایسے فوجی ٹھکانے قائم کرے اور اپنی فوجی موجودگی کو مستحکم کرے جس کی مدد سے اُسے افغانستان میں فضائی کاروائی کرنے میں زیادہ وقت نہ لگے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ امریکہ کی ایک نظر افغانستان تو دوسری نظر افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر ٹکی ہوئی ہے۔امریکہ کے عزائم جو بھی ہوں لیکن پاکستان پہلے ہی امریکہ پر واضح کر چکا ہے کہ وہ افغانستان پر فضائی حملوں میں کسی بھی قسم کی مدد فراہم نہیں کرے گا اور وزیراعظم عمران خان بار بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر امریکہ نے فوجی اڈے فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تو پاکستان کا جواب بالکل نفی (ابسلوٹلی ناٹ) میں ہو گا۔حال ہی میں امریکہ کی انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا وینڈی شرمین نے وسطی ایشیائی ازبکستان کا دورہ بھی کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دورے کا مقصد فوجی اڈے کے حصول کے بارے میں ازبکستان کی رائے جاننے کی کوشش تھی جبکہ ازبکستان کی جانب سے امریکہ کو فوجی اڈے دینے کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ روسی خبر رساں ادارے تاس نے روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف کے حوالے سے خبر دی ہے کہ انہوں نے امریکی انڈر سیکرٹری وکٹوریہ نولینڈ سے امریکہ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا کے فوجی اتحاد آکس کے حوالے سے اپنے خدشات کا ذکر کیا ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکی اہلکار سے آکس کے حوالے سے اپنے خدشات کے بارے میں سوالات کئے کہ آسٹریلیا ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے این پی ٹی کے ساتھ جامع معاہدہ کر چکا ہے۔ وہ دو جوہری طاقتوں کے ساتھ معاہدے کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی کیسے پاسداری کرے گا؟ روسی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ اس معاملے کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔روس کو امریکہ کے جنگی عزائم کا بخوبی علم ہے۔ حالیہ دنوں میں جب امریکہ نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری کیلئے معاہدے کئے اور نیٹو نے ایسے ہتھیاروں کی تنصیب روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی تو روس نے نیٹو پر تنقید کی‘ روس نے ان سبھی معاملات اور اِن سے متعلق اپنے تحفظات کے بارے میں امریکہ کو آگاہ کر رکھا ہے لیکن روس امریکہ کے ساتھ کوئی بھی ایسا سمجھوتہ یا معاہدہ نہیں کرنا چاہتا جس کی وجہ سے امریکی افواج کا افغانستان میں کسی بھی قسم کا عمل دخل پھر سے شروع ہو بلکہ وہ چاہتا ہے اور اُس کی کوشش ہے کہ خطے کے ممالک مل جل کر افغانستان کو اپنے پاؤں میں کھڑا ہونے کیلئے سہارا دیں اور یہی پاکستان کا بھی نکتہئ نظر ہے کہ افغانستان میں پائیدار قیام امن کے موجودہ موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ذاکر طاہری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)