نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (NCOC) نے تعلیمی اداروں میں سوفیصد حاضری کے ساتھ درس و تدریس کا عمل بحال کرنے کا اعلان کیا ہے‘ جس پر والدین اور اساتذہ کی جانب سے مسرت و تشکر کا اظہار اِس حقیقت کا عکاس ہے کہ عوام کی اکثریت تعلیمی عمل کے تعطل کی وجہ سے پریشان تھی۔ این سی او سی کی جانب سے تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے کے ساتھ ہی کورونا وبا سے ممکنہ بچاؤ کیلئے حفاظتی اقدامات (SOPs) پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ این سی او سی کی اس ہدایت نے تعلیمی اداروں کیلئے ایک دلچسپ اور پیچیدہ صورتحال پیدا کی ہے۔ اب جبکہ تمام طلبہ سکول آئیں گے تو ایسی صورت میں سماجی فاصلے پر کس طرح عمل ممکن ہوسکے گا؟ ہماری جامعات میں کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کیلئے کمرہ جماعت کی پچاس فیصد گنجائش کا استعمال شروع کردیا تھا۔ اب ہم سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے سوفیصد فیصد طلبہ کو کیسے بٹھائیں گے؟ ہم کورسز سیکشنز کو دگنا تو نہیں کرسکتے۔ ہم تمام جماعتوں کو مختصر بھی نہیں کرسکتے۔ اینٹ اور سیمنٹ سے بنے کمرہ ہائے جماعت کو بڑا یا چھوٹا بنانا بھی ہمارے بس میں نہیں۔ اگر ایس او پیز پر مؤثر انداز میں عمل درآمد یقینی بنانا ہے تو 100 فیصد طلبہ کو کس طرح تعلیمی اداروں میں بٹھایا جائے؟ مسئلہ صرف کمرہئ جماعت تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہی چیلنج سکول کی دیگر جگہوں پر بھی صادق آتا ہے۔ ہمارا جمنازیم مخصوص افراد کی گنجائش کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اگر ہم فاصلے کی پابندیاں نافذ کرتے ہیں تو طلبہ‘ اساتذہ اور عملے کی ضروریات کو کیسے پورا کریں گے؟ ہمارے کیفے ٹیریا بھی ایک خاص انداز اور محدود لوگوں کی گنجائش کو ذہن میں رکھ کر تعمیر کئے گئے تھے۔ اب فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے ہم کس طرح لوگوں کی ناشتہ‘ دوپہر اور رات کے کھانے کی ضروریات کو پورا کرسکیں گے؟ ہم دیگر عمارتوں میں نئے کیفے ٹیریا اور ریسٹورنٹس کھول چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے سماجی فاصلے کا خیال رکھتے ہوئے محدود افراد کیلئے چار دیواری سے باہر (آوٹ ڈور) بیٹھنے کی جگہ بھی بنائی ہے مگر یہ طریقہ کار بھی ایک حد تک ہی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں کھلے یا اوپن ائر کمرہ ہائے جماعت بھی ہیں مگر لاہور میں موسم کی صورتحال اور ڈینگی و اسموگ کے خطرے کو مدِنظر رکھیں تو کھلی جگہوں پر کس حد تک تدریسی سرگرمی منتقل کی جاسکتی ہے؟ محدود اوقات میں طلبہ کی محدود تعداد کو ہی پڑھایا جاسکتا ہے۔ ہم نے کھلی فضا میں بیٹھنے کی عام جگہوں کی تعداد میں مزید اضافہ کیا ہے مگر بات پھر وہی آتی ہے کہ یہ کام ایک مخصوص حد تک ہی انجام دیا جاسکتا ہے اور اگر فاصلہ اور دیگر ایس او پیز پر عمل کیا جائے تو یہ مخصوص حد بلاشبہ ضرورت سے کافی کم ہے۔ لائبریری کا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ جب سکول کھلیں گے تو طلبہ کو لائبریری میں مطالعے کی ضرورت بھی پیش آئے گی اور انہیں وسائل تک رسائی کی بھی ضرورت ہوگی۔ ہم ان کی ضروریات کو کیسے پورا کرپائیں گے؟ ہر کتاب یا مضمون یا تحریر آن لائن اور ڈیجیٹل صورت میں دستیاب تو ہے نہیں۔ پھر طلبہ کو بیٹھنے اور مطالعے کیلئے جگہ درکار ہوگی۔ اگر لائبریری میں انہیں جگہ فراہم نہ کی جاسکی تو وہ کہاں جائیں گے؟ یونیورسٹیوں اور سکولوں کیلئے اب ضروری ہے کہ وہ اداروں میں ہوادار کمروں (وینٹی لیشن) کا نظام قائم کریں۔ اس کے علاوہ کمرہ جماعت میں ایسی کھڑکیوں کا ہونا بھی ضروری ہے جو کھل سکیں اور جہاں سے ہوا کا آمدو رفت ممکن ہو لیکن سوال یہ ہے کہ ان کاموں کیلئے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے کیونکہ مذکورہ بالا چند تبدیلیوں کو انجام دینے میں اچھی خاصی رقم پہلے ہی خرچ ہوچکی ہے۔ ملک میں کتنی ایسی یونیورسٹیاں اور کتنے ایسے سکول ہیں جو یہ تبدیلیاں کرسکتے ہیں؟ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ان کی مالی حالت کافی تنگ ہے۔ پاکستان میں ایسی بھی جامعات ہیں جو تنخواہ اور پینشن دینے میں دشواری کا سامنا کر رہی ہیں۔ وہ تمام طلبہ کیلئے ایس او پیز کے تقاضوں کے مطابق گنجائش پیدا کرنے کیلئے مزید کتنا پیسہ خرچ کرسکتی ہیں؟ حتیٰ کہ جن تعلیمی اداروں کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے وہ بھی ایک حد تک ہی تبدیلیوں کو انجام دے سکتے ہیں لیکن اگر طلبہ کیلئے ایس او پیز کے مطابق گنجائش پیدا نہیں کی جاتی تو یا ہمیں طلبہ‘ اساتذہ اور عملے کی صحت یا پھر تعلیم اور تعلیمی تجربے کے معیار سے سمجھوتا کرنا پڑجائے گا۔ ہوسٹل کی گنجائش کا مسئلہ تو مزید پیچیدہ ہے۔ ایک کمرے میں ایک طالب علم کو ٹھہرانا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ اس طرح زیادہ تر طلبہ اور ان کے والدین کیلئے ہوسٹل اخراجات ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ جائیں گے۔ متعدد تعلیمی اداروں کیلئے تو مذکورہ بالا مسائل کے بارے میں سوچنا بھی محال ہوگا۔ ہم نامعلوم و بے نشان مقام پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ چونکہ ہمارے پاس نقشے بھی نہیں اس لئے ہمیں کوئی جگاڑ لگا کر ہی مشکل سے نکلنا پڑے گا اور کئی سکول اور جامعات تقریباً اٹھارہ مہینوں سے اب تک یہی کر رہی ہیں۔ حکومت کیلئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور محکمہ ہائے تعلیم کے ذریعے اداروں کی معاونت کرے تاکہ ہم اپنے محدود وسائل کے ساتھ ان مسائل کا بہتر حل تلاش کرنے کے ساتھ ان پر عمل درآمد بھی کرسکیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: فیصل باری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)