عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی وجہ سے پاکستان کو کیا قیمت چکانی پڑی وہ پاکستان کی خراب معاشی صورتحال سے واضح ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت روپے کی قیمت گرائی گئی جس کی وجہ سے صرف مئی کے مہینے سے لے کر آج تک پاکستان کے قرضوں میں گیارہ ارب ڈالر اضافہ ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر پاکستان کے معاشی اعشارئیوں کے اندازوں کو دیکھا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف نے جی ڈی پی کے بڑھنے کا جو اندازہ لگایا ہے وہ تو پاکستان کے چار اعشاریہ آٹھ فیصد کے ہدف سے کم ہے۔ اسی طرح اگر بیروزگاری میں کمی کی بات کی گئی ہے تو وہ معاشی سرگرمیوں کے بڑھنے جن میں زرعی پیداوار میں اضافہ اور تعمیراتی شعبے میں زیادہ سرگرمیوں کی بنیاد پر ہے۔ آئی ایم ایف نے گذشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کے دو فیصد پر بڑھنے کی توقع کی تھی لیکن پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ تین اعشاریہ نو فیصد رہی۔ اِس مہنگائی میں بین الاقوامی عوامل بھی شامل ہیں اور دنیا میں اس وقت جو غیر یقینی کی صورتحال ہے اس پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس پاکستان کی معیشت کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوئی خاص تیکنیکی صلاحیت نہیں۔ اس کی وجہ سے اس کے معیشت کے بارے میں تخمینے اور اندازے ’نقائص سے بھرپور ہوتے ہیں۔‘یہ تاثر پورا سچ نہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس پاکستانی معیشت کو جاننے کی تیکنیکی صلاحیت موجود نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیا میں کسی ادارے کے پاس ڈیٹا اور تیکنیکی صلاحیت موجود ہے تو وہ آئی ایم ایف ہی ہے جو ہر طرح کی متعلقہ اور غیرمتعلقہ معلومات جمع رکھتا ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) پر پیش گوئی مشکل نہیں کیونکہ صنعتیں اور زراعت کی کارکردگی سے متعلق خود حکومتی اعدادوشمار وقتاً فوقتاً جاری کئے جاتے ہیں اور اِس بارے میں صنعتکاروں کے بیانات اور تجزیہ کاروں کے مضامین بھی موجود ہوتے ہیں۔ اگر عالمی مالیاتی ادارے کو پاکستان کے کسی ایک شعبے کی کارکردگی کے بارے میں خاطرخواہ علم نہیں تو وہ خدمات کا شعبہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی جانب سے جاری کئے گئے حالیہ ’اکنامک آؤٹ لک‘ میں موجودہ مالی سال میں پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح کم ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھنے کی جانب اشارہ اور رواں مالی سال میں ملکی ترقی کی شرح نمو چار فیصد تک رہنے کی توقع کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے پاکستان سمیت دنیا کی بیشتر معیشتوں کے بارے میں پیش گوئی اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معطل شدہ پروگرام کی بحالی کے لئے مذاکرات کرنے جا رہا ہے تاکہ اس کے تحت ملک کو ایک ارب ڈالر قرض کی قسط جاری ہو سکے جو آئی ایم ایف کے پاکستان کیلئے ’ایکسٹنڈڈ فنانسنگ فیسلٹی پروگرام‘ کے تحت مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں جاری ہو گی۔ پاکستان کے معاشی اعشارئیوں کے بارے میں آئی ایم ایف کی پیش گوئی بہتری کی طرف اشارہ کرتی ہے جن میں رواں برس بیروزگاری اور مہنگائی میں کمی ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے بیروزگاری اور مہنگائی میں کمی کی پیش گوئی سے پاکستان کے بعض معاشی ماہرین اتفاق نہیں کرتے اور انہوں نے مہنگائی کے مزید بڑھنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔موجودہ مالی سال کے بجٹ میں وفاقی حکومت نے ملکی ترقی میں شرح نمو کا ہدف چاراعشاریہ آٹھ فیصد رکھا تھا‘ جو آئی ایم ایف کے مطابق چار فیصد رہنے کی توقع ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ یا جاری کھاتوں کے خسارے میں بڑھنے کی توقع کا اظہار کیا گیا ہے جو اس سال تین اعشاریہ ایک فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ جاری کھاتوں کا خسارے اگر اس شرح سے بڑھے تو پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دس ارب ڈالر تک بڑھ جائے گا جبکہ مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک) کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو سے تین فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔پاکستان میں ستمبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح نو فیصد تک ریکارڈ کی گئی تھی۔ دوسری جانب آئی ایم ایف نے پاکستان میں بیروزگاری کی شرح میں کمی کی توقع کا بھی اظہار کیا ہے جو گذشتہ برس ادارے کے تخمینے پانچ فیصد کے مقابلے میں چاراعشاریہ آٹھ فیصد رہے گی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیروزگاری اور مہنگائی کی شرح میں کمی کی پیش گوئی سے اتفاق ضروری نہیں کیونکہ مہنگائی کی شرح گیارہ سے بارہ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ اگرچہ حکومت کہتی ہے کہ بیروزگاری کی شرح پانچ سے چھ فیصد ہے تاہم غیر جانبدارانہ تخمینے کے مطابق اس کی شرح بارہ سے تیرہ فیصد ہے۔ اِس سلسلے میں اگر چار چیزوں کی قیمتیں کو دیکھا جائے تو حقیقت حال کا پتہ چل جائے گا کہ مہنگائی کتنی بڑھے گی۔ پام آئل کی قیمت چھ سو ڈالر سے ایک ہزار ڈالر فی ٹن چلی گئی ہے۔ ایل این جی کا نرخ دس ڈالر سے پچاس ڈالر‘ خام تیل کی قیمت سینتیس ڈالر سے چوراسی ڈالر فی بیرل چلی گئی اور کوئلے کی قیمت ساٹھ ڈالر سے ڈھائی سو ڈالر فی ٹن پر پہنچ چکی ہے اور ان قیمتوں میں اضافہ جاری ہے۔ جب تک عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھتی رہیں گی اُس وقت تک پاکستان میں بھی مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا اِس لئے جو لوگ ’آئی ایم ایف‘ کے بیان کو لیکر سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی کم ہوگی اُنہیں مہنگائی کے بڑھنے پر تعجب نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ایک عالمی عمل ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر راحت شمیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)