احتجاج کی سیاست

موضوع کوئی بھی ہو‘ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کی تان احتجاج پر آ کر ٹوٹتی ہے اور اِس مرتبہ بھی متعدد سیاسی جماعتوں پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“ کی طرف سے مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ بغور دیکھا جائے تو حزب اختلاف کی جماعتوں کی اِس حکمت عملی میں تبدیلی بلاوجہ نہیں۔ حکومت کی طرف سے چوبیس گھنٹوں کے فرق سے بجلی اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قمیتوں میں اضافے کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اوگرا کی طرف سے پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے سے زائد کا اضافہ تجویز کیا تھا لیکن حکومت نے اس میں دس روپے کا اضافہ کر دیا جس کی وجہ سے عام آدمی حیران و پریشان ہیں۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ حکومت نے اوگرا کی طرف سے تجویز کردہ قیمتوں میں دگناہ اضافہ کیا۔ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے علیحدگی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پی ڈی ایم کو اتنا سنجیدہ نہیں لیتی تھی۔ ایسے حالات میں جبکہ حکومت  کو بھی کئی مشکلات کا سامنا ہے اور مہنگائی بھی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں تو حزب مخالف کی جماعتوں نے بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی طرف سے مہنگائی کے خلاف پہلی احتجاجی ریلی بیس اکتوبر کو راولپنڈی میں نکالی گئی تھی۔پاکستان میں سیاسی بے چینی بھی پائی جاتی ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف حزب مخالف نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ہے‘ اگر وہ کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر وفاقی حکومت کا جانا بھی ٹھہر جائے گا کیونکہ صوبے میں برسر اقتدار بلوچستان عوامی پارٹی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ یہ سیاسی مصلحت کے تحت بنی ہے۔ جس طرح مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے‘ تو ایسے حالات میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے عوامی مسائل کو لے کر حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنے فیصد عوام مہنگائی کے خلاف حزب مخالف کی جماعتوں کی کال پر سڑکوں پر نکلتی ہے۔ اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے اسلام سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ملک کی ابتر ہوتی ہوئی معاشی صورت حال میں  حکومتکو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ مہنگائی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے جو احتجاج کا اعلان کیا ہے وہ ایک مقبول بیانیہ ہے اور یہ بیانیہ بکے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی حکومت تحریکوں کی وجہ سے نہیں گئی۔ ماضی میں بہت سے لانگ مارچ ہوئے دھرنے بھی ہوئے لیکن کوئی بھی حکومت لانگ مارچ اور دھرنوں کی وجہ سے گھر نہیں گئی۔ حکومت جس طرح مختلف معاملات اور عوام کو ریلیف دینے میں ناکامی جیسے مسائل میں گھری ہوئی ہے تو ایسے حالات میں حزب مخالف کی جماعتوں کیلئے احتجاجی تحریک چلانے کیلئے ماحول ساز گار ہے۔ ایسی تحریکوں سے حکومتیں کمزور تو ہوتی ہیں لیکن ختم نہیں ہوتیں۔ ملک کی حالیہ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی حکومت کو کمزور کرنے کیلئے پہل بلوچستان سے کی جاتی ہے نواز لیگ کا مؤقف ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات سمیت اشیائے خوردونوش کی قمیتوں میں اضافے سے عام آدمی کی زندگی شدید متاثر ہے معاشی ماہرین کے مطابق موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح دس فیصد سے اوپر رہنے کی توقع ہے۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ اگر حزب مخالف کی تمام جماعتیں مل کر حکومت کے خلاف احتجاج کریں تو یہ زیادہ موثر ہو گا‘پاکستان تحریک انصاف مہنگائی کو الگ زاویئے سے دیکھتی ہے اور اِس کی قیادت کی جانب سے باور کرایا گیا ہے کہ تحریک کو عوام کی پریشانیوں کا ادراک ہے اور بہت جلد لوگوں کو مہنگائی میں کمی کی صورت ”اچھی خبر“ ملے گی۔ جہاں تک حزب اختلاف کے احتجاج کا تعلق ہے تو جمہوری ملکوں میں تحریکیں چلتی رہتی ہیں اور حکومت ان تحریکوں سے جمہوری انداز میں ہی نمٹے گی۔ جو سیاسی جماعتیں مہنگائی کی آڑ میں حکومت کے خلاف تحریک چلارہی ہیں وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گی کیونکہ پاکستانی عوام بخوبی جانتے ہیں ان جماعتوں کے قائدین عوامی مسائل کی آڑ میں اپنے ذاتی و سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے سادہ لوح عوام کو استعمال کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ لہر سابق حکومتوں کی غلط معاشی پالیسوں اور عالمی منڈی میں چیزوں کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ہے اور امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی عوام بھی مہنگائی سے متاثر ہوئے ہیں۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کیلئے تحریک انصاف حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کم آمدنی والے طبقات کو اشیائے ضروریہ کی خرید میں رعایت (ٹارگٹیڈ سبسڈی) دینے کی حکمت عملی وضع کر رہی ہے جس کا بہت جلد اعلان کیا جائے گا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: سیّد ذیشان فاطمی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)