ایک طرف وزیرِاعظم روزانہ کی بنیاد پر برداشت بڑھانے کا درس دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف عوام پر مہنگائی کا بوجھ ہر دن بڑھتا جا رہا ہے‘ جس دن پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافوں کا یکجا اثر حکومتی نظام پر پڑا اس دن سلسلہ وار واقعات کا بند ایسا ٹوٹے گا جس سے بڑے سے بڑا ”سپن ماسٹر‘‘بھی نمٹ نہیں سکے گا اور یہ تو ابھی شروعات ہے۔ آنے والے دنوں میں پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ‘ زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ‘ زرِ مبادلہ کی شرح میں مزید کمی اور سود کی شرح میں اضافہ ہر صورت دیکھنے کو ملے گا‘ چاہے واشنگٹن ڈی سی میں جیسے تیسے معاہدہ طے پاجائے۔ ان حالات کے پیش نظر مارکیٹ پہلے ہی اپنے تخمینوں میں اضافی رقم جوڑنا شروع ہوچکی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ مالیاتی مارکیٹوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے، اس پر غور کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ہفتے سے اب تک بین البینک منڈی میں زرِ مبادلہ کی شرح ڈھائی روپے تک گرچکی ہے اور (شہر کے اعتبار سے) اوپن مارکیٹ میں قریب تین روپے تک کی گراوٹ آچکی ہے۔ بین البینک تجارتوں میں ڈالر174 روپے کا ہوچکا ہے۔ چند داخلی ذرائع کے مطابق تیزی سے بدلتی اس صورتحال کے سنبھلنے کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شرح سود کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ حکومتی تمسکات کی نیلامی (گورنمنٹ ڈیٹ آکشن) کے نتائج تادمِ تحریر اپ لوڈ نہیں کئے جاسکے تھے۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ زیادہ تر بولیاں تین ماہ کیلئے سرکاری تمسکات خریدنے کیلئے لگائی گئیں اور اونچے درجے کے منافع طلب کئے گئے۔ نیلامی کا مقصد چھ سو ارب روپے کی رقم اکٹھا کرنا تھا جبکہ بولیاں 715ارب روپے تک کی لگائی گئیں لہٰذا فیصلہ کرنا مشکل نہیں تھا۔ نصف بولیاں تین مہینوں کی مدت کے تمسکات کے لئے لگائی گئی تھیں جبکہ صرف چھ بولیاں چھ اکتوبر کو ہونے والی گزشتہ نیلامی میں تین ماہ کے تمسکات کیلئے مقررہ یا اس سے کم شرح پر منظور کی گئیں۔ دیگر تمام پچانوے بولیاں کافی اونچی رہیں۔ نیلامی کی مقررہ شرح کا جب اعلان ہوگا تو صورتحال زیادہ واضح ہوجائے گی مگر ایک بات تو یقینی ہے کہ مارکیٹ ایک بار پھر حکومت سے بھاری منافعوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ٹھیک جس طرح فروری سے مارچ یا اپریل تک کے عرصے میں کررہی تھی۔ ان دنوں اس بات پر زور دیا گیا کہ افراط ِزر کے محاذ پر کچھ بھی ہوجائے شرح میں اضافہ نہیں ہوگا اور مارکیٹ یہ بات سن کر مطمئن ہوگئی مگر یہ صورتحال چند ماہ تک ہی برقرار رہ سکی۔ موجودہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں مئی سے اب تک زبردست اضافہ ہوا اور اب چونکہ آنیوالے مہینوں میں مہنگائی بھی زوروں پر ہوگی۔اس لئے سٹیٹ بینک کے پاس مارکیٹوں کے مطالبات ماننے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوگا‘ اس نئی حقیقت میں فی الحال بجلی اور روپے کی قیمتوں کو ایڈجسٹ کیا جا رہا ہے، آنے والے مہینوں میں یہ ایڈجسٹمنٹ پوری معیشت میں پھیل جائے گی اور کھانے پینے کی چیزوں اور دیگر اشیائے ضروریہ میں بھی نظر آنے لگے گی۔ایسی صورتحال کا سامنا کرنیوالے حکمران کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں سے رجوع کرے اور صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری اقدامات پر اتفاق پیدا کرے۔ مشکل گھڑیوں میں حکمرانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلقات پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک مربوط پیغام رساں مہم کے ذریعے عوام کو حالات کے لئے تیار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور تیسرا مطلوبہ کام یہ ہونا چاہئے کہ محروم طبقات کو ممکنہ صورتحال کے سنگین اثرات سے بچانے کیلئے سیفٹی نیٹ ورکس قائم کئے جائیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)