چین: ماضی سے مستقبل کا سفر

چین عالمی طاقت ہے مگر چند دہائیاں قبل اس بات کا تصور مشکل تھا لیکن چین کی کامیابیوں کو دنیا ایک مقابلے کی صورت دیکھتی ہے جیسا کہ ’بیلٹ اینڈ روڈ (BRI)‘ منصوبہ جو ساٹھ سے زیادہ ممالک میں تعمیرات کا بڑا نیٹ ورک ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کے ایسے حصوں میں بھی سرمایہ کاری ہوئی ہے جو مغربی ممالک کے قرضوں سے محروم تھے تاہم عالمی معاملات پر چین کے بیانات کافی سخت ہیں۔ چین نے آسٹریلیا‘ برطانیہ اور امریکہ کے درمیان آبدوزوں کے معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’چین کو محدود کرنے کی امریکی کوشش‘ قرار دیا ہے۔ اس کے علاؤہ چین نے برطانیہ کو متنبہ کیا ہے کہ ہانگ کانگ کے ان شہریوں کو پناہ دینے کے سنگین نتائج ہوں گے جو وہاں نافذ کئے جانے والے سخت نیشنل سکیورٹی قانون کی وجہ سے ہانگ کانگ سے بھاگ رہے ہیں۔ چین نے تائیوان سے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ واپس چین کا حصہ بننے کیلئے تیار ہو جائے۔ چین کے صدر شی جن پنگ عالمی منظر نامے پر اپنے ملک کو جس زور دار طریقے سے سامنے لائے ہیں ایسا سرد جنگ کے زمانے میں ملک کے عظیم رہنما ماؤ زے تنگ کے بعد سے کسی چینی رہنما نے نہیں کیا۔ صدر شی جن پنگ کے موجودہ بیانیے کی جڑیں ملک کے قدیم اور نسبتاً جدید ماضی میں موجود ہیں۔ یہ وہ پانچ خیالات ہیں جن کا اظہار ان کی پالیسیوں اور بیانات میں بار بار نظر آتا ہے۔ گذشتہ دو ہزار سال سے زیادہ عرصے سے کنفیوشس کے نظریات نے چینی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کنفیوشس ایک فلسفی تھے جو 479عیسوی میں پیدا اور 551 عیسوی میں فوت ہوا۔ انہوں نے مختلف سطحوں اور درجات پر مشتمل اخلاقی اور معاشرتی نظام کا نظریہ پیش کیا۔ مذکورہ نظام میں لوگوں کیلئے معاشرے میں اپنی اپنی جگہ متعین کی گئی۔ ہر شخص کو اپنے درجے کے بارے میں معلوم تھا۔ یہ نظام رحم دلی کے جذبے اور اس توقع پر قائم کیا گیا تھا کہ بلند درجے کے لوگ نچلے درجات کے لوگوں کا خیال رکھیں گے۔ گزشتہ دو ہزار سال سے زیادہ عرصے سے کنفیوشس کے نظریات نے چینی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین میں شاہی خاندانوں کی حکومتوں نے کنفیوشس کے ان ہی نظریات کو بڑی حد تک اپنایا اور صدیوں تک ان کے سہارے قائم رہیں تاہم 1911ء کے انقلاب کے نتیجے میں آخری بادشاہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔ آج چین میں ’ہم آہنگی‘ کو سوشلسٹ اقدار میں سے ایک سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس اصطلاح سے کنفیوشس کے فلسفے کے طرف ذہن جاتا ہے۔ چین کی سیاسی سوچ میں مارکسزم لینن ازم کے تاریخی نظریات کا گہرا اثر ہے اور صدر شی جن پنگ کی قیادت میں انہیں تیزی سے بحال کیا گیا ہے۔بیسویں صدی کے دوران ماؤ زے تنگ اور دیگر اہم کمیونسٹ سیاسی رہنماؤں نے مارکسزم پر نظریاتی بحث و مباحثے کرتے رہے جس کے بہت بڑے پیمانے پر نتائج سامنے آئے۔ چین کا اصرار ہے کہ تائیوان اس کا اٹوٹ انگ ہے اور یہ اس جزیرے کی ایک ایسی منزل ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا۔چین کا کہنا ہے کہ تائیوان کو واپس چین کا حصہ بننا ہی ہے تاہم ماضی ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ چین کی سیاست میں تائیوان کے معاملے کا اثر کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ 1895ء میں جاپان کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ کے نتیجے میں چین نے مجبوراً تائیوان کو جاپان کے حوالے کر دیا تھا اور اگلے تقریباً پچاس برس تک تائیوان جاپان کی کالونی بنا رہا۔اس کے بعد 1945ء سے 1949ء تک کے ایک مختصر عرصے کے لئے تائیوان میں موجود چینی قوم پرستوں کی وجہ سے یہ واپس چین کا حصہ بن گیا۔ ماؤ کے دور میں چین نے اسے حاصل کرنے کا موقع کھو دیا کیونکہ اس زمانے کے امریکی صدر ٹرومین کی انتظامیہ شاید ماؤ کو تائیوان واپس لینے دیتی لیکن 1950ء میں جب شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کیا تو چین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔ جس کے نتیجے میں کوریائی جنگ شروع ہو گئی اور تائیوان سرد جنگ میں ایک اہم مغربی اتحادی بن گیا۔ 1979ء میں جب امریکہ چین کے تعلقات بحال ہوئے تو ایک مشکل معاہدہ کیا گیا جس کے تحت چین ایک ہی ملک ہو گا لیکن اس بات پر اتفاق نہیں ہوا کہ چین اور تائیوان میں موجود حکومتوں میں سے اصل میں کس کی قانونی حیثیت ہے۔ چالیس برس بعد صدر شی کا اصرار ہے کہ تائیوان کو فوراً چین میں واپس شامل ہو جانا چاہئے اور اِس عمل میں مغربی ممالک بالخصوص امریکہ چین کی راہ میں حائل ہے اور تائیوان میں چین مخالف جذبات کو بھڑکانے میں بھی امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک کے اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ چین صرف عالمی طاقت نہیں اور نہ ہی یہ اب اپنی جغرافیائی سرحدوں میں محدود ہے بلکہ چین عالمی ترقی میں شراکت دار بن کر تاریخ انسانی کی ایک ایسی مثال بن گیا ہے‘ جس کی کوئی مثل و نظیر نہیں ملتی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رحمان طریف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)