ہائپرسانک (آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز) میزائل عام میزائلوں کے مقابلے میں انتہائی تیز رفتار اور سبک ہوتے ہیں‘ جس کی وجہ سے ان کا توڑ ناممکن ہو جاتا ہے۔ چین کے علاوہ امریکہ‘ روس اور کم از کم پانچ دیگر ملک ہائپرسانک میزائل ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ ماہ شمالی کوریا نے کہا تھا کہ اس نے ہائپرسانک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ جولائی کے مہینے میں روس نے اس نوعیت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس نے سمندر سے یہ میزائل داغا تھا۔ چین بھی نئی قسم کے میزائلوں کا تجربہ کر چکا ہے۔ موسم گرما میں دو بار چین نے خلا میں راکٹ لانچ کیا جس نے اپنے ہدف کی طرف تیزی سے بڑھنے سے قبل پوری دنیا کا چکر لگایا۔ فنانشل ٹائمز نے یہ خبر بریک کی تھی اور اس تجربے سے باخبر افراد نے اخبار کو بتایا تھا کہ پہلی بار یہ راکٹ اپنے ہدف کو حاصل نہیں کر سکا تھا اور اپنے ہدف سے چالیس کلومیٹر دوری پر رہا۔ بین الاقوامی جریدے فنانشل ٹائمز کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں اس خبر سے تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی تھی جہاں امریکہ کے خفیہ اداروں کو اس بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی اور وہ یہ جان کر حیران رہ گئے تھے۔ چین نے ان خبروں کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ اس نے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز میزائل کا چند مہینے قبل تجربہ کیا تھا اور اس بات پر اصرار کیا کہ یہ خلائی جہاز کا ایک معمول کا تجربہ تھا۔ جس میں مختلف قسم کی دوبارہ قابل استعمال خلائی ٹیکنالوجی کو جانچا گیا تھا۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ چین کا انکار ’ابہام پر مبنی ہے‘ کیونکہ اس خبر کی تصدیق امریکی حکام نے دوسرے ذرائع سے کر لی ہے اور چین کا آربٹل بمبارڈمنٹ سسٹم (ایف او بی) کا تجربہ تکنیکی اور حکمت عملی دونوں کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔آئی سی بی ایم ایک طویل فاصلے پر مار کرنے والا میزائل ہوتا ہے‘ جب اس میزائل کو زمین سے چھوڑا جاتا ہے تو یا اوپر جا کر دوبارہ ایک بار فضا میں داخل ہو کر اپنے ہدف کا خاص زاویے سے تعاقب کرتا ہے ایک فنکشنل آربٹل بمبارڈمنٹ سسٹم ہدف کو غیر متوقع سمت سے نشانہ بنانے کیلئے میزائلوں کو زمین کے گرد ایک جزوی مدار سے بھیجتا ہے۔ جہاں تک دوبارہ استعمال کی بات ہے تو یہ اِس قابل خلائی جہاز ایک ہائپرسانک گلائیڈر ہوتا ہے اور یہ صرف لینڈ کرتا ہے۔ ہتھیاروں کی نئی دوڑ میں بیجنگ کو یہ خدشہ ہے کہ امریکہ جدید جوہری قوتوں اور میزائل کے دفاع کے نظام سے اس کی ایسے حملوں کے خلاف دفاعی طاقت کو ختم کر دے گا۔ اگر امریکہ پہلے بیجنگ پر حملہ کرتا ہے‘ تو الاسکا میں میزائل ڈیفنس سسٹم چین کے بچ جانے والے جوہری ہتھیاروں کی چھوٹی تعداد کو سنبھالنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔ تمام بڑے جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک ہائپرسانک نظام تیار کر رہے ہیں لیکن وہ اس نظام کو مختلف طریقے سے دیکھتے ہیں۔ یہ اختلاف ایک دوسرے کے بارے میں ان کی بے چینی اور خوف میں اضافہ کر سکتا ہے جس سے اسلحے کی دوڑ میں تیزی آ سکتی ہے۔ بیجنگ اور ماسکو دونوں ہائپرسانک کو میزائل سسٹم کی شکست کو یقینی بنانے کے ہتھیار کے طور پر دیکھ رہے ہیں مگر اس کے برعکس امریکہ اس میزائل کو نام نہاد مشکل اہداف کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کرنے کی منصوبہ رکھتا ہے جیسا کہ وہ چیزیں جو جو روایتی یا غیر جوہری وارہیڈز کے استعمال کے ذریعے اس کے نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول کو مدد فراہم کر سکیں بعض ماہرین امریکہ کی طرف سے اپنے جوہری پروگرام میں جدت کو چین کی طرف سے اس میزائل کے تجربے کی وجہ قرار دیتے ہیں اور وہ اسے ’اے سپوٹنک مومنٹ‘ سے تعبیر کرتے ہیں جب اُنیس سو پچاس کی دہائی کے اواخر میں سویت یونین نے پہلا اوربِٹل سیٹلائٹ یا مدار میں بھیجا جانے والا سیٹلائٹ بنایا تھا جس سے امریکہ حیرت میں مبتلا ہو کر رہ گیا تھا مگر بعض ماہرین اس سے متفق نہیں ہوں گے اور وہ اس پر یقین نہیں کریں گے کہ چین نے امریکہ کے لئے نیا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ کم از کم اُنیس سو اَسی کی دہائی سے ہی امریکہ کو چین کی طرف سے جوہری حملے کا خطرہ لاحق ہے تاہم چین‘ روس اور جنوبی کوریا کی طرف سے امریکہ کے میزائل ڈیفنس کو شکست دینے سے متعلق انتہائی کوششوں سے امریکہ کو چوکنا ہو جانا چاہئے اور اس پر از سر نو غور کرنا ہو گا کہ کیا وہ معاہدے جو ایسے دفاعی نظام پر پابندیاں عائد کرتے ہیں وہ امریکی مفاد میں ہیں؟ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر اشرف سعید۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)