سرکاری خریداری: پاکستان میں ہرسال وفاقی حکومت اور چار صوبائی حکومتیں مجموعی طور پر قریب 10کھرب روپے کی خریداری کرتی ہیں۔ اِس خریداری کو اگر پاکستان کی کل آبادی یعنی فی خاندان تقسیم کیا جائے تو وفاقی اور صوبائی حکومت کے ادارے ہر پاکستانی خاندان کیلئے اوسط 3 لاکھ روپے کی خریداری کرتے ہیں اور جب ہم مذکورہ سرکاری خریداریوں میں خردبرد (گھپلے اور بدعنوانیوں) کی بات کرتے ہیں تو اندازہ ہے کہ 10 کھرب روپے کا 20 سے 50 فیصد خردبرد کی نذر ہو جاتا ہے یعنی ہر سال سرکاری مالی وسائل سے 2 کھرب روپے بدعنوانی کی وجہ سے نجی مالی وسائل کا حصہ بن جاتے ہیں اور یہ رقم کس قدر بڑی ہے اور غیرمعمولی ہے اِسے سمجھنے کیلئے بدعنوانی کی نذر ہونے والی رقم کا امریکی ڈالروں سے تبادلہ کیا جائے تو 11 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ حکومت عالمی مالیاتی ادارے یا کسی دوست ملک سے تین چار ارب ڈالر مانگ کر یا قرض لیکر ملک چلاتی ہے لیکن اپنے ہاں گیارہ ارب سالانہ ہونے والی بدعنوانی روک کر کہیں اس سے زیادہ رقم حاصل ہوتی ہے۔یادش بخیر سال 1950ء سے پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (IMF) کے ساتھ معاہدے کے ذریعے قرض حاصل کر رہا ہے اور اب تک 23 مرتبہ ’آئی ایم ایف‘ سے قرض لیا گیا ہے۔ سال 2019ء میں ’آئی ایم ایف‘ نے پاکستان کیلئے 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی۔ سال 2010ء میں قومی سالانہ خریداری پر نظر رکھنے والے وفاقی ادارے کے سربراہ خالد جاوید جو اِس ادارے (Public Procurement Regulatory Authority) کے پہلے سربراہ بھی تھے اُنہوں نے کہا تھا کہ ”ہمیں ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر ہم قومی و صوبائی سطح پر ہونے والی حکومتی خریداریوں میں ہونے والی بدعنوانی کو روک لیں تو یہ بیرونی قرضہ جات سے زیادہ کی بچت ہوگی۔“تصور کریں کہ 2 کھرب روپے سالانہ اگر خردبرد ہو رہے ہیں تو اِس طرزعمل کے 6 پہلو ہیں۔ 1: اجتماعی رویئے جن میں بدعنوانی اور بدعنوانوں سے نفرت کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ 2: غیرمعیاری خریداری کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہر سال خریداری کرنا پڑتی ہے اور اِس کے باوجود بھی نہ تو ضرورت پوری ہوتی ہے اور نہ ہی غیرپائیداری کی وجہ سے مقصد حاصل ہوتا ہے۔ 3: قیمتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ 4: خریداری کی رسیدوں میں ردوبدل کیا جاتا ہے۔ 5: مقابلے کی فضا نہیں بننے دی جاتی اور نہ ہی مقابلے کی فضا پیدا کرکے اِس سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ 6: قومی وسائل کے ضیاع پر دردمندی کا اظہار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی قومی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے بچت کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اِن چھ خرابیوں کا واحد حل یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کیلئے خریداری کا پورا نظام ’ای خریداری (e-procurement)‘ کے ذریعے کیا جائے اور سرکاری خریداری سے جڑے مالی امور کی اصلاح پر توجہ دی جائے۔ بجلی کا پیداواری شعبہ (Power Sector): اگست 2018ء میں تحریک انصاف برسراقتدار آئی تو اُس وقت گردشی قرض 1.14 (ایک اعشاریہ چودہ) کھرب روپے تھا جو بڑھ کر ڈھائی کھرب روپے ہو چکا ہے اور جس رفتار سے گردشی قرض میں اضافہ ہوا ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کا اندازہ ہے کہ سال 2025ء تک پاکستان کا اندرونی (گردشی) قرضہ 5 کھرب تک جا پہنچے گا۔ ذہن نشین رہے کہ ڈھائی کھرب روپے 14 ارب ڈالر کے مساوی ہوتے ہیں اور حال ہی میں پاکستان نے سعودی عرب سے 3 ارب روپے مہلت پر (اُدھار) لئے ہیں تاکہ پاکستانی روپے کو سہارا دیا جا سکے۔ بجلی کے شعبے میں گردشی قرض کا محرک بجلی چوری اور بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے مہنگے داموں بجلی کی خریداری ہے جبکہ گردشی قرضوں کا تیسرا محرک یہ ہے کہ بااثر بجلی صارفین کی ایک تعداد ایسی ہے بھی ہے جو بجلی استعمال تو کرتی ہے لیکن استعمال شدہ بجلی کی قیمت (بل) بروقت ادا نہیں کرتی۔ بجلی کی طرح گردشی قرض گیس کے شعبے میں بھی ہو رہا ہے جو 350 ارب روپے جیسی بلند شرح تک جا پہنچا ہے۔ اگر گردشی قرض سے نجات اور اِس کا کوئی پائیدار حل نہ نکالا گیا تو پاکستان کی اقتصادی و معاشی مشکلات حل نہیں ہوں گی۔ اِس سلسلے میں بھی حکومت کو سب سے پہلے ان اقدامات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام