ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی غور کر رہی ہے اور اِس مشاورت کا نام ’کوپ چھبیس‘ رکھا گیا ہے۔ گلاسگو میں جب امریکی صدر جو بائیڈن تقریر کیلئے سٹیج پر آئے تو انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ دنیا کو ایک بات باور ضرور کرائیں گے۔ وہی بات جو انہوں نے جی ٹوئنٹی ممالک کی پریس کانفرنس میں باور کرائی تھی کہ امریکہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں دنیا کا ساتھ دے گا۔ ماحولیات کے تحفظ کیلئے امریکہ پانچ سو پچپن ارب ڈالر جیسی خطیر رقم مختص کرنا چاہتا ہے اور اِس سلسلے میں ایک مسودہئ قانون امریکی کانگریس کے سامنے زیر غور ہے۔ اِس بات کا اشارتاً ذکر امریکی صدر نے اپنی تقریر میں بھی کیا ہے۔ امریکہ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی کسی حکومت نے اتنی خطیر رقم عالمی حدت (کرہئ ارض کے درجہئ حرارت) کو کم کرنے کیلئے مختص نہیں کا۔ سوچ یہ ہے کہ اس رقم کو شفاف ذرائع سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کیلئے استعمال کیا جائے لیکن مذکورہ مسودہ قانون ابھی منظور نہیں ہو سکا ہے اور یہ بھی یقینی نہیں ہے کہ صدر بائیڈن اس کی منظوری کیلئے کانگریس میں مطلوبہ حمایت حاصل کر پائیں گے۔ مجوزہ قانون میں توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی جو زمین سے حاصل کردہ ذرائع سے توانائی پیدا کرتی ہیں‘ حوصلہ شکنی کرنے اور غیر روایتی ذرائع سے توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنے سے متعلق ایک اہم شق پر جو بائیڈن کی اپنی ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جو مینچن نے مخالفت کر دی ہے۔ سینیٹر جو مینچن ویسٹ ورجینا کی نمائندگی کرتے ہیں جو علاقہ کوئلے کی پیداوار کیلئے مشہور ہے۔ اس مسودہ قانون پر پیشرفت میں رکاوٹ ایوان صدر کیلئے انتہائی پریشان کن تھی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ صدر بائیڈن کے ’جی ٹوئنٹی‘ ممالک کے اجلاس میں شرکت کیلئے روم پہنچنے سے قبل یہ قانون منظور کر لیا جائے۔ اس وجہ سے صدر بائیڈن کو دیگر ملکوں کے صدور اور سربراہاں کے مقابلے میں کوئی برتری حاصل نہیں ہوتی۔ ان کی یہ بات اخلاقی طور پر کس قدر وزن رکھتی ہے کہ ’دیکھیں میں کیا کرتا اگر میرے پاس مطلوبہ ووٹ ہوتے۔‘ عالمی سطح پر ایک مسئلہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ہے جو امریکی صدر کی ماحول دوستی کیلئے مشکالات کھڑی کر سکتا ہے۔ جو بائیڈن ماحولیات کے مسئلے پر دنیا کی رہنمائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں وہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم ’اوپیک‘ کو اپنی پیداوار بڑھانے پر قائل کرنے میں مصروف ہیں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں امریکی صدر کیلئے ایک درد سر بن گئی ہیں۔ اس وقت صارفین انتہائی برانگیختہ ہیں کیونکہ انہیں ایک گیلن تیل تین ڈالر میں خریدنا پڑ رہا ہے۔ صدر بائیڈن کو چاہئے کہ وہ ان صارفین کو لندن کے پیٹرول پمپوں کا دورہ کرائیں تاکہ امریکی شہریوں کو یہ احساس ہو سکے کہ وہ اس معاملے میں کتنے خوش قسمت ہیں۔ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جہاں موسم کے بارے میں لوگ جنون کی حد تک حساس ہیں کیونکہ یہاں سمندری طوفان‘ قطبی بگولے‘ آندھیاں اور جھلسا دینے والی گرمیوں کی لہریں اور دیگر قدرتی آفات آتی رہتی ہیں لیکن ماحول کے بارے میں لوگوں کو اتنی فکر نہیں ہے باوجود اس کے کہ حالیہ برسوں میں ملک بدتریں قدرتی آفات کی لپیٹ میں رہا ہے جن میں درجہ حرارت میں شدید اضافے سے جنگل میں بھڑکنے والی آگ‘ سمندری طوفان اور ٹیکساس جیسے علاقے میں منجمد کر دینے والی سردیاں شامل ہیں لیکن اس مرحلے پر اگر نظر دیگر جگہوں پر ڈالی جانے چاہئے۔ جو المیہ یا مشکل صدر بائیڈن کی ہے وہ کسی شکل میں روم اور اس کے بعد گلاسگو میں جمع ہونے والے دیگر عالمی رہنماؤں کو بھی درپیش ہے ممکن ہے کہ گلاسگو میں ہونے والی کانفرنس میں عالمی رہنما سیاست دانوں کی طرح کا رویہ اختیار نہ کریں اور وہ تمام اقدامات اپنائیں جن کا مطالبہ ماحولیات کے تحفظ کیلئے سرگرم کارکن کر رہے ہیں لیکن بہرصورت ان کے ذہن میں ہو گا کہ ان ماحول دوست اقدامات پر اپنے عوام کو قائل کرنا ان کیلئے کس قدر ممکن ہو گا اور کیا ان کے ملک کیلئے دشواری پیدا نہیں ہو گی اور کیا ان اقدامات کو اختیار کرنے سے وہ اپنا ذاتی نقصان نہیں کر رہے ہوں گے؟ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: شاہد شکور۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)۔
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام