نیب قانون اُور ترامیم

غیرمعمولی پیشرفت جس کا نہ صرف پاکستان کی سیاست بلکہ اس کے قومی احتسابی عمل پر بھی فرق پڑے گا وہ یہ رونما ہوئی ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے نیب کے تیسرے ترمیمی آرڈیننس 2021ء کی منظوری کے بعد نیا آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے۔ جس کے تحت انٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت دائر ریفرنس نیب کے دائرہئ اختیار میں رہیں گے اور ان ریفرنسوں کی احتساب عدالت ہی سماعت کرے گی۔ نئے ترمیمی آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کے عہدے کی میعاد چار سال مقرر کر دی گئی ہے جبکہ انہیں عہدے سے ہٹانے کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہو گا۔ آرڈیننس کا اطلاق گزشتہ ماہ سے کیا گیا ہے جب ترمیمی آرڈیننس کے تحت موجودہ چیئرمین نیب کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیئرمین کے تقرر تک اپنے فرائض ادا کرتے رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ نئے آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل سے واپس لے کر صدر مملکت کو دے دیا گیا ہے جبکہ چیئرمین نیب صدر مملکت کی متعینہ شرائط پر چار سال تک اس منصب پر کام کریں گے۔ نئی ترامیم کے تحت عوام الناس سے دھوکہ دہی اور فراڈ کے کیسز کے علاؤہ مضاربہ کیسز بھی واپس نیب کے حوالے کر دیئے گئے ہیں اور ان کیسز کو اکتوبر سے پہلے کی پوزیشن پر بحال کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح جعلی اکاؤنٹس کے کیسز بھی پرانے آرڈیننس کے تحت برقرار رہ سکیں گے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر کے بقول پہلے والے نیب آرڈیننس سے یہ تاثر سامنے آیا تھا کہ منی لانڈرنگ کے کیسز کو نیب کے دائرہئ اختیار سے باہر نکال دیا گیا ہے‘ اس لئے اب نئے ترمیمی آرڈیننس میں یہ واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ سے متعلق کیسز نیب کے دائرہئ اختیار میں ہی رہیں گے۔ ماضی میں احتساب کے ادارے سے متعلق یہ تاثر پختہ ہو چکا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے چیئرمین نیب کا تقرر عمل میں آنے کے باعث اس ادارے کی حکومتی تابع فرمان ادارے کی حیثیت بن چکی ہے جو آزادی کے ساتھ احتساب کا عمل جاری نہیں رکھ سکتا۔ اسی تناظر میں نیب کو حکومتی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کا تاثر بھی قائم ہوا جبکہ کسی حکومتی شخصیت کے خلاف نیب کی کاروائی خارج از امکان سمجھی جاتی تھی اور اس حوالے سے سابق حکمرانوں کی جانب سے چیئرمین نیب کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں چنانچہ دوہزارآٹھ کی اسمبلی میں جب سسٹم میں موجود بعض خامیوں کی اصلاح کے لئے آئین پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کا عمل شروع ہوا تو اس ترمیم میں نیب کے ادارے کو آزاد و خودمختار بنانے کی شق بھی شامل کر لی گئی جبکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم ہاؤس میں متفقہ طور پر منظور کرانے کا کارنامہ سرانجام دیا گیا تاکہ آئندہ بھی کبھی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی تنازعہ کھڑا نہ ہو۔ اس ترمیم کی بنیاد پر چیئرمین الیکشن کمیشن کی طرح چیئرمین نیب کے تقرر اور برطرفی کا آئینی طریق کار متعین کیا گیا اور نیب ایکٹ کے ذریعے نیب کے دائرہئ اختیار کا تعین کیا گیا چنانچہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی روشنی میں چیئرمین نیب کے تقرر کیلئے وزیراعظم کا کلی اختیار ختم کر کے تقرر کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین بامعنی مشاورت لازمی قرار دی گئی۔ اسی طرح چیئرمین نیب کی برطرفی کا اختیار بھی وزیراعظم سے واپس لے کر سپریم جوڈیشل کونسل کو دے دیا گیا اور اس کے پیرامیٹرز اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی برطرفی والے ہی متعین کئے گئے چنانچہ اس طریق کار کے تحت نیب کی ایک خودمختار ادارے کی حیثیت متعین ہو گئی۔ تحریک انصاف کا شروع دن سے منشور اور قوم سے عہد ملک کو بدعنوانی کے ناسور سے نجات دلانا اور کرپشن فری سوسائٹی تشکیل ہے جبکہ دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں اقتدار کا مینڈیٹ بھی اِسی منشور کی بنیاد پر حاصل ہوا اور اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کا عہد کر کے بے لاگ احتساب کے عمل کا آغاز بھی کر دیا جو بلاشبہ معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کی جانب اہم پیش رفت تھی جبکہ نیب نے بھی چیئرمین جاوید اقبال کی سربراہی میں بے لاگ احتساب کے عملی اقدامات اٹھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور سابق حکمران طبقات کے علاؤہ موجودہ متعلقہ حکومتی اکابرین کے خلاف بھی نیب کے مقدمات میں بھی بے لاگ کاروائی کی اور قوم کے لوٹے گئے اربوں روپے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے۔ یہ سب نیب کی آزاد و خودمختار حیثیت کے باعث ہی ممکن ہو پایا جس کے لئے متعلقہ حکومتی انتظامی اداروں نے بھی نیب کی بھرپور معاونت کی۔حالیہ ترمیم سے ایک بار پھر نیب فعال کردار اد ا کرتے ہوئے کرپشن کے خلاف حکومتی ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار دا کریگا۔اور اب وقت کم اور مقابلہ سخت کے  مصداق حکومت کو ایسے عملی اورواضح اقدامات اٹھانے ہوں گے جس سے احتساب کاعمل مزید تیز ہو ااور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کا محاسبہ ہو سکے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: شاہد رؤف ایڈوکیٹ۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)۔