افغانستان اور عالمی طاقتیں 

افغانستان میں طالبان نے عبوری حکومت قائم کرنے کے بعد سے محتاط طرز عمل اختیار کر رکھا ہے اور ماضی کے برعکس اِس مرتبہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا جا رہا ہے جیسا کہ عبوری حکومت کی تقریب حلف برداری کا پروگرام اچانک منسوخ کیا گیا جبکہ پانچ ممالک کو اِس تقریب کے دعوت نامے بھی بھیج دیئے گئے تھے یقینا افغان طالبان کی نظریں مستقبل پر مرکوز ہیں۔ افغان طالبان نے جب تقریب حلف برداری منسوخ کی تو کئی لوگ حیران ہوئے کہ ایسا کیوں ہوا؟ حالانکہ اس کا واضح جواب روس کے صدارتی محل نے دے دیا تھا کہ اس حکومت کی تقریب حلف برداری میں کسی بھی سطح پر نمائندگی نہیں کی جائے گی۔ روس کے اعلان سے واضح تھا کہ علاقائی طاقتیں فوری طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کرنا چاہتیں اور یہ فیصلہ باہمی رابطوں کے نتیجے میں ہوا ہے اب جبکہ طالبان حکومت نے کام شروع کردیا ہے اور قطر کے وزیرِ خارجہ نے پہلے غیر ملکی رہنما کے طور پر کابل کا دورہ کیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ حالات کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ طالبان کو یقین دہانیاں کروانے کے باوجود کسی بھی ملک نے انہیں تسلیم کرنے کا فوری اعلان نہیں کیا؟ ماسکو‘ بیجنگ اور انقرہ کیا سوچ رہے ہیں؟ امریکہ رسوائی کے ساتھ فوجی انخلا کے بعد اس خطے سے متعلق کیا عزائم رکھتا ہے؟ کیا امریکہ پہلے کی طرح پاکستان اور خطے کو تنہا چھوڑ کر نکل جائے گا؟ مستقبل میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے اور طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے گا یا نہیں؟ افغانستان سے متعلق عالمی پالیسی کا انحصار بڑی حد تک چین پر ہے جو گزشتہ دس سال کے دوران افغان طالبان کے ساتھ اچھے مراسم استوار کئے ہوئے ہے اور چین نے اشرف غنی کے فرار سے پہلے دونوں فریقین کے ساتھ متوازن تعلقات کی پالیسی اپنائے رکھی تھی۔ اگرچہ اٹھائیس جولائی دوہزار اکیس کو ملا عبدالغنی برادر کی چینی وزیرِ خارجہ کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی لیکن چین کو امریکہ کے اتحادی اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مراسم میں کوئی دشواری نہیں تھی۔ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد چین نے غیر معمولی سطح کا مثبت ردِعمل دیا۔ ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ وفود کی سطح پر ملاقات کے موقع پر چین کے وزیرِ خارجہ نے طالبان کو افغانستان کی سیاسی اور عسکری قوت قرار دیا تھا۔ اٹھارہ جولائی کو چین کی وزارت ِخارجہ کے ترجمان نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے سوال پر کہا تھا کہ جب تک حکومت بن نہیں جاتی اس وقت تک اس کے جواب کا انتظار کیا جائے۔ ایک دن بعد چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے طالبان کے اچھے‘ مثبت اور حقیقت پسندانہ رویئے کی تعریف کی اور بین الاقوامی برادری سے کہا کہ وہ طالبان سے متعلق دقیانوسی تصورات کو ترک کردے۔ بیجنگ کے اِس محتاط ردِعمل سے عیاں ہے کہ وہ افغانستان اور طالبان سے متعلق ابتدائی جائزے پر پہنچ کر دو نتائج اخذ کرچکا ہے۔ ان میں سے پہلا نتیجہ طالبان کی فتح اور اس فتح کی پائیداری سے متعلق ہے۔ افغانستان میں پنج شیر سمیت کہیں چھوٹی موٹی مزاحمت نظر آتی ہے لیکن چین اس مزاحمت کو طالبان کیلئے بڑا سیاسی چیلنج تصور نہیں کر رہا۔ دوسرا نتیجہ طالبان کے رویئے میں بہتری سے متعلق ہے۔ چین کا خیال ہے کہ طالبان اب زیادہ عقلیت اور حقیقت پسند ہوگئے ہیں‘ اس نتیجے کی بنیاد طالبان کی سفارتکاری اور حالیہ وعدے ہیں۔ مذکورہ دو نتائج کی بنیاد پر بیجنگ کی پالیسی اور بیانات مرتب کئے گئے ہیں یعنی بیجنگ یہ سمجھتا ہے کہ طالبان اب زیادہ عرصے کیلئے آئے ہیں اور ان کا رویہ بیس سال پہلے کی نسبت بہت زیادہ بدل گیا ہے۔ اگر ان نتائج کی بنیاد پر پالیسی بنائی گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ چین طالبان کو شک کا فائدہ دے گا اور جب تک طالبان کوئی بڑی غلطی نہیں کرتے ان کی تائید کرے گا۔ گیارہ ستمبر (نائن الیون) حملوں کو بیس سال مکمل ہونے پر چینی میڈیا کے تبصروں اور کارٹونز میں جو کچھ کہا گیا وہ چین کی پالیسی کا عکاس ہے۔ ان تبصروں میں امریکی صدور کے تضادات نمایاں کئے اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ (وار آن ٹیرر) سے پیدا ہونے والے انسانی المیوں کو اجاگر کیا گیا۔ یہی بیجنگ کا سیاسی مؤقف ہے اور بیجنگ اب افغانستان میں یہ دکھانے کی کوشش کرے گا کہ جنگ کے ذریعے یا کسی ملک میں اپنا سیاسی ماڈل مسلط کرنے سے تبدیلی نہیں آتی۔ تبدیلی کا واحد راستہ معاشی تعاون ہے اور چین بیلٹ اینڈ روڈ (BRI) ویژن کے ساتھ دنیا کی بہتری اور قیادت کیلئے تیار ہے۔ یہی مؤقف پیپلز لبریشن آرمی کے ریٹائرڈ سینئر افسر ژاؤ بو نے نیویارک ٹائمز کے مضمون میں اپنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ چین امریکہ کے پیدا کئے گئے خلا کو پر کرنے کیلئے تیار ہے اور افغانستان کی معدنی دولت اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے اس ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتا ہے تاہم ابھی بیجنگ کی پالیسی حتمی نہیں اور وہ محتاط رویہ اپنا رہا ہے کیونکہ بیجنگ میں اس بات پر بھی سوچ بچار جاری ہے کہ افغانستان نہ ختم ہونے والے تنازعات‘ قبائلی جھگڑوں اور مذہبی و نسلی تقسیم کی طویل تاریخ رکھتا ہے۔ چینی میڈیا نے گیارہ ستمبر کی یادگاری تقریبات پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے افغانستان کیلئے عام استعمال ہونے والی اصطلاح سلطنتوں کا قبرستان بھی استعمال کی تھی جو اسی سوچ کی عکاس ہے۔ اسی لئے مستقبل میں طالبان کی حکومت تسلیم کئے جانے کے بعد بھی افغانستان میں چین کی طرف سے فوری طور پر بڑی سرمایہ کاری متوقع نہیں اور چین محتاط رویہ اپنائے گا۔ واشنگٹن کے ساتھ روایتی عناد کے پیش نظر بیجنگ افغانستان کو امریکہ پر برتری دکھانے کیلئے ہر صورت استعمال کرے گا اسی لئے اُنتیس اگست کو امریکی وزیرِ خارجہ کے ساتھ فون پر ہونے والی گفتگو میں چینی وزیرِ خارجہ نے واشنگٹن کو لیکچر دیا تھا اور کہا تھا طالبان سے رابطوں اور انہیں درست سمت رہنمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ چین اس حکومت کو تسلیم کرے گا لیکن معاشی و سیاسی امداد کا انحصار طالبان کے رویوں اور وعدوں کے نتائج پر ہوگا۔ چین کی طرح افغانستان میں روس کا کردار بھی اہم ہے۔ ماسکو نے کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بھی سفارتخانہ فعال رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ تقریب حلف برداری میں شرکت کا واضح اعلان نہیں کیا لیکن طالبان کے ساتھ تعلقات برسوں پرانے ہیں اور یورپی ملکوں کے برعکس ماسکو طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ امریکہ کی رسوا کن واپسی دیکھ کر ماسکو کو تسکین ملی ہے۔ طالبان کے ساتھ اچھے ’ورکنگ ریلیشن‘ کے باوجود ماسکو طالبان کے وعدوں اور مستقبل کے رویئے سے متعلق محتاط ہے اور تقریب حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کا کھلا اعلان بھی اسی احتیاط کا عکاس ہے۔ افغانستان میں ماسکو اور بیجنگ کا سب سے بڑا مفاد علاقائی سکیورٹی اور استحکام ہے۔ ماسکو افغان سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کے جڑ پکڑنے اور وسطی ایشیا میں ان کے پھیلنے کے خدشات کو ذہن میں رکھتا ہے اور اس سے بچنے کیلئے طالبان کے ساتھ ورکنگ ریلشنز کو اہمیت دیتا ہے۔ ماسکو افغانستان میں جامع اور نمائندہ حکومت کی بات ضرور کرتا ہے لیکن اس مطالبے پر زیادہ زور نہیں دے گا۔ اسے افغانستان کے اندرونی معاملات سے سروکار نہیں بلکہ اس کے خیال میں اسے طالبان کی حکومت کے ساتھ معاملات کرنے میں زیادہ آسانی ہوگی۔ ابھی تک ماسکو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں کسی عجلت کا مظاہرہ کرتا نظر نہیں آتا اور اس کا ثبوت اب تک افغان طالبان کا ماسکو کی دہشت گردوں کی فہرست میں موجود ہونا ہے۔ ماسکو پالیسی صرف طالبان کے ساتھ روابط برقرار رکھنا ہے۔ روس افغانستان کو ایک وحدت برقرار دیکھنا چاہتا ہے اور اگر یہی معاملہ ہے تو وہ اپوزیشن گروپوں کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ ویسے بھی ایسا کوئی اپوزیشن گروپ اب موجود نہیں جو مقابلے کی سکت رکھتا ہو۔ ماسکو طالبان کو افغان سرحدوں کے اندر تک محدود رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور افغان بارڈر کے ساتھ روس کی جنگی مشقیں اس پالیسی کی عکاس ہیں۔ ترکمانستان اور ازبکستان اپنے طور پر خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں اور تاجکستان کو دفاع مضبوط بنانے اور مہاجرین کا سیلاب روکنے میں مدد دینے کیلئے ماسکو متحرک ہوچکا ہے۔ وسطی ایشیا میں روس کا اقتصادی اثر و رسوخ ماند پڑ چکا ہے لیکن سکیورٹی کے حوالے سے وہ مضبوط اور تجربہ کار شراکت دار ہے۔ روس کی جغرافیائی اہمیت بھی ہے اور وہ ترکی‘ چین اور ایران کیلئے سکیورٹی حوالوں سے اہم ہے اور موقع پڑنے پر اچھا اتحاد بنانے میں کام آسکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر شوکت نعیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)