مہنگائی کا موازنہ

کیا پاکستان میں مہنگائی کی شرح کا موازنہ دیگر ممالک سے کرنا جائز ہے؟ وزیرِاعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں جو مہنگائی ہو رہی ہے اس کی وجہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ترکی جیسے ملک میں مہنگائی کی شرح اُنیس فیصد بڑھی جبکہ اس کی کرنسی میں 33فیصد گراوٹ آئی۔ امریکہ میں سال دوہزارچھ کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی‘ چین میں پروڈیوسر پرائس انڈیکس میں چھبیس سال میں پہلی بار غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جرمنی میں پچاس سال میں سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی ہے یقینا ”مہنگائی عالمی مسئلہ“ ہے۔ جس کی بڑی وجہ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمت خصوصاً کوئلے اور گیس کی قیمت میں اضافہ ہے تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح یا افراط ِزر گزشتہ کچھ عرصے سے بدستور بلندی کی جانب مائل ہے۔ افراطِ زر دراصل قیمتوں میں اضافے کی شرح کو کہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں افراط ِزر مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مالی سال دوہزاربیس میں قیمتوں میں اضافے کی شرح دس اعشاریہ سات فیصد تھی‘ اس دوران شہروں میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں تیرہ اعشاریہ چھ فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں پندرہ اعشاریہ نو فیصد تک اضافہ ہوا۔ مالی سال دوہزار اکیس کے دوران مجموعی مہنگائی کی شرح آٹھ اعشاریہ نو فیصد رہی جبکہ شہروں میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں بارہ اعشارہ چار فیصد اور دیہی علاقوں میں تیرہ اعشاریہ ایک فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ اکتوبر کے دوران مہنگائی میں مجموعی طور پر 9فیصد کا اضافہ ہوا مگر شہروں میں غذائی اجناس 10فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 9فیصد سے زائد کی شرح سے مہنگی بڑھ رہی ہے۔ اگر عالمی سطح پر افراط ِزر کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جی ٹوئنٹی (ترقی یافتہ) ملکوں میں جاپان‘ سعودی عرب اور چین میں مہنگائی کی شرح یا افراط ِزر ایک فیصد سے بھی کم جبکہ سوئٹزرلینڈ‘ انڈونیشیا‘ سنگاپور‘ فرانس اور اٹلی میں تین فیصد سے کم‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ‘ جنوبی کوریا‘ ہالینڈ‘ یورپی یونین‘ بھارت‘ کینیڈا اور جرمنی میں پانچ فیصد سے کم‘ جنوبی افریقہ‘ امریکہ‘ سپین‘ میکسیکو اور روس میں دس فیصد سے کم ہے البتہ صرف ترکی میں مہنگائی کی شرح اُنیس فیصد اور ارجنٹینا میں باون اعشاریہ دو فیصد ہے۔ ایشیائی ملکوں میں بحرین‘ مالدیپ‘ متحدہ عرب امارات اور میکاؤ میں افراط زر ایک فیصد سے کم جبکہ خانہ جنگی کے شکار شام میں یہ شرح اکتہر فیصد سے زیادہ اور لبنان میں 144فیصد ہے۔ طالبان کے زیرِ انتظام افغانستان میں افراط ِزر ایک اعشاریہ چھپن فیصد ہے۔ چند روز قبل نیپرا نے کابینہ کے بجلی کی قیمت میں 1.39روپے اضافے کے فیصلے پر سماعت کی۔ دراصل حکومت سال کے آخر تک بجلی کی قیمتیں بڑھا کر 900ارب روپے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی بڑھتی قیمتوں کے پیشِ نظر ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی‘ اگر ایسا نہ ہوا تو قومی خسارہ بڑھے گا اور محصولات میں الگ سے کمی آئے گی۔ سردیوں میں گیس کا مسئلہ بھی جنم لینے والا ہے جبکہ درآمدی گیس کی قیمت بڑھانا مجبوری ہے۔ سردیوں میں گیس بحران کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ پاکستان میں ماہانہ قریب ایک کروڑ لیٹر پیٹرول استعمال ہوتا ہے۔  فی لیٹر پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے کے اضافے سے توانائی (جس میں بجلی اور پیٹرول دونوں شامل ہیں) کی مد میں ایک سال میں ایک ہزار ارب روپے اضافی قومی خزانے میں آئیں گے۔  دوسری طرف شوگر کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ شوگر مل مالکان نے چینی کی قیمت میں اضافے سے 265ارب روپے کا اضافی منافع کمایا۔یعنی حکومت نے اپنی طرف سے عوام کے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے انہیں ریلیف پیکیج دیتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کی تاہم ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں نے عوام کی جیبوں سے اس ریلیف کو نکالنے کے لئے پوری منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور اس پر تیزی کے ساتھ عمل پیرا بھی ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ہمایوں جمال۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)