افغانوں کی مشکلات

افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد طالبان کی قانونی حیثیت اور افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران کے حوالے سے کئی بحثیں جاری ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان بحثوں اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے طالبان کی قانونی حیثیت کی الجھنوں کے درمیان افغانستان میں رہنے والے عام افغان بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حالیہ چند ماہ کے دوران عام افغانوں کی زندگی یکسر بدل گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے جاری کردہ حالیہ جائزے کے مطابق اگر عالمی برادری نے اس مشکل وقت میں افغانستان کی مدد کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو افغانستان کی ستانوے فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتی ہے۔ راقم الحروف کا تعلق قبائلی علاقے (افغانستان کی سرحد سے جڑے علاقوں) سے ہونے کی وجہ سے مجھے افغانستان میں رہنے والے عام افغانوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے اور یہ بات اُن سب نے تسلیم کی ہے کہ مغرب پر انحصار کرنے والی افغان حکومت ہونے کے باوجود‘ بدعنوانی اور تشدد موجود ہے۔ جلال آباد سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر نے بیروزگاری تین گنا بڑھنے کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ کابل کے پل چرخی صنعتی پارک میں تین ہزار کارخانے تھے جن میں دس لاکھ مزدوروں کے ساتھ انجینئرز‘ دفتری عملہ بھی کام کرتا تھا اب وہاں صرف تیس ہزار کارکن ہی برسرروزگار ہیں اور افغانستان کی صنعتوں میں فراہم ہونے والا روزگار کا تناسب ہر دن کم ہو رہا ہے۔ عام افغان کی زندگی جس قدر مشکلات کا شکار پہلے تھی وہی مشکلات آج بھی جاری ہیں۔ عام افغان صرف اس ایک بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ یا تو حکومت بدلے گی یا پھر امریکہ یا مغربی طاقتیں طالبان کو سہولت فراہم کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ نکالیں گی‘ جس کا انہوں نے دوحا معاہدے کے تحت وعدہ کیا تھا۔یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان اپنی قوم کے درد کو کم کرنے کے لئے مذکورہ دوحا معاہدے کی پاسداری کیلئے تیار (آمادہ) ہوں گے؟ سینئر مینجمنٹ سے تعلق رکھنے والا ایک افغان جو پچھلی حکومت کی انتظامیہ کا حصہ تھے راقم الحروف کو بتاتا کہ موجودہ حکومت نے پچھلی حکومت کے اہلکاروں کو کام کاج کرنے کی اجازت نہیں دی۔ یہاں تک کہ ماضی میں انتظامی عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے معاونین یا تکنیکی عملے کو بھی اپنی ملازمتیں جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔  غیرمصدقہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ متعدد سرکاری ملازمین گزشتہ تین ماہ سے تنخواہوں کے منتظر ہیں جن میں مختلف سرکاری جامعات کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔ انہیں مطلع کیا گیا ہے کہ انہیں نجی جامعات میں پڑھانے کی اجازت نہیں اور طالبان کی جانب سے اس پابندی کے پیچھے یہ منطق ہے کہ پروفیسرز بیس سالہ تجربات سے کم سے کم یہ ایک بات تو سیکھ سکتے ہیں کہ ریاست کیلئے کس طرح قربانیاں دی جاتی ہیں۔افغانوں کی اکثریت اقتصادی مشکلات کا شکار ہے اور اِسی وجہ سے بہت سے افغان ملک چھوڑ چکے ہیں یا ایسا کرنے کی تیاری کرتے ہوئے زاد ِراہ جمع کر رہے ہیں۔ کچھ افغان صرف اس لئے ملک چھوڑ رہے ہیں کہ اگر وہ افغانستان میں رہے تو کسی مرحلے پر اُن کے لئے سخت سزائیں منتظر ہیں۔ دوسری طرف غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کو اپنے بارے میں بہت سارے تاثرات کو بدلنا ہوگا۔ اُنہیں عام افغانوں کو باور کرانا چاہئے کہ اُن کی جان و مال محفوظ ہے اور طالبان کسی بھی مرحلے پر انتقام نہیں لیں گے لہٰذا اُنہیں افغانستان سے فرار ہونے کے بارے میں نہیں بلکہ افغانستان میں رہتے ہوئے اپنی معیشت و معاشرت بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے مسائل میں بے روزگاری‘ معاشی مشکلات اور بنیادی اشیاء کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں شامل ہیں۔ ایسے میں بین الاقوامی برادری پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغان عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے طالبان حکومت کے ساتھ اس طرح کے تعلقات استوار کرے کہ عام آدمی کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں طالبان حکومت کو مشکل کا سامنا نہ ہو۔ اور دیکھا جائے تو طالبان کے رویے میں بتدیلی بھی تب ہی آئے گی جب بین الاقوامی برادری ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ اس طرح افغان طالبان عالمی برادری کے تقاضوں کا احساس کر سکیں گے اور ساتھ ساتھ اپنے عوام کی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی ان کو سہولت رہے گی جس کے مثبت اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ یو این ڈی پی سے وابستہ ایک اہلکار نے کہا کہ ”ہم نے حالیہ تاریخ میں کسی بھی ملک میں اِس قدر غربت میں نہیں دیکھا۔“ یہ ستم ظریفی ہے کہ مغرب نے دوحا معاہدے کے تحت طالبان کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا اور انہیں حکومت بنانے کا قانونی حق دیا لیکن افغان عوام سے منہ موڑ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک کی اِس حکمت عملی کا کا خمیازہ صرف اور صرف افغانستان کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ طالبان ماضی کی طرح اپنے آپ کو ثابت کرنے اور اپنی بقا کا راستہ تلاش کر رہے ہیں‘ جس کے بارے میں افغان عوام تحفظات اور تفکرات سے دوچار ہیں۔ دیکھا جائے تو افغانستان کی بحالی کی تمام تر ذمہ داری ان ممالک پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اس ملک کو بدحالی تک پہنچایا اور اسے بدترین معاشی مسائل سے دوچار کرکے چھوڑ دیا امریکہ اور ان کے اتحادی پر لازم ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کے مسائل کا ادراک کرے اور اپنے اختلافات کی صورت افغان عوام کو نہ دیں جن کو اس وقت کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے ایسے حالات میں کہ جب موسم کی شدت روز بروز بڑھ رہی ہے افغانستان میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے کیونکہ یہاں ایک طرف اگر پیداواری صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں تو دوسری طرف رہائش کے مسائل سے دوچار لوگوں کی بھی کمی نہیں اس لئے ضروری ہے کہ موسم سرما کی شدت میں اضافہ ہونے سے قبل اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا ایک طرف ان کو غذائی اجناس کی ترسیل ضروری ہے دوسری طرف رہائشی مسائل کا حل بھی اس سے زیادہ لازم ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مونا نصیر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)