افغانستان میں بحران

تیزی سے رو بہ زوال افغان معیشت کیلئے خطرات کا شمار ممکن نہیں اور اگر افغانستان میں معیشت و معاشرت کی بحالی میں عالمی تعاون شامل حال نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ انتہائی غربت میں اضافہ ہوگا اور سال2022ء میں ستانوے فیصد افغان شہری شدید غربت کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے اِس اندازے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) مزید کم ہو کر تیس فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے تازہ ترین جائزے میں اِس بات کی بھی پیش گوئی کی گئی ہے کہ افغان بحران شام اور یمن میں رونما ہونے والے اقتصادی بحران سے زیادہ بدتر ہو سکتا ہے اور جب ہم افغان بحران کی بات کرتے ہیں تو یہ تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ افراد کا مسئلہ ہے یعنی قریب 23 ملین افغانوں کے پاس اتنی خوراک نہیں ہوگی کہ وہ سردیوں سے گزر بسر کر سکیں جب تک کہ افغانستان کی عالمی امداد میں تیزی سے اضافہ نہیں کیا جاتا۔ افغانستان کے کچھ حصے طویل خشک سالی سے متاثر ہیں جبکہ کورونا وبا (Covid19) اور رواں برس گندم کی فصل کو ہونے والے شدید نقصانات نے ملک کے معاشی بحران میں اضافہ کیا ہے۔ ملک میں امن و امان اور معیشت کی اِس مایوس صورتحال کی وجہ سے کئی افغان خاندان اِس بات پر مجبور ہیں کہ وہ گزربسر کیلئے پیسوں کے عوض اپنے بچے بیچ دیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق افغانستان میں اشیائے خوردونوش کی مہنگائی میں پچاس فیصد جبکہ دیگر روزمرہ کی ضروریات جیسا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت 75فیصد سے زیادہ ہیں اگرچہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے موجودہ دور کو ”افغانستان کے سب سے خطرناک وقت“ قرار دیتے ہوئے اِسے جلد ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے اور عالمی رہنماؤں کو جنیوا میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کرنے کی جانب متوجہ کیا ہے لیکن وعدوں اور کیش سٹریم کے درمیان فاصلہ ختم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی افغانستان میں امدادی کارکن گھر گھر جا کر امداد کی ترسیل کا انتظام کر سکتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان کیلئے امداد لیجانے والی کارگو پروازیں بھی متاثر ہیں اور انتہائی ضروری طبی سازوسامان اور دیگر امدادی سامان کی نقل وحمل متاثر ہے۔ افغانستان میں ضرورت اور امداد کی رسد کے درمیان واضح طور پر فرق موجود ہے۔ محدود وسائل کی وجہ سے  یہاں کے مکینوں کو سنگین حالات کا سامنا ہے۔ افغانستان میں پہلے ہی دنیا میں زچگی کی شرح اموات کی بدترین صورت ہے جہاں ہر دس ہزار زندہ پیدائشوں میں 638 خواتین کی موت ہو جاتی ہے۔ ایک کروڑ بچوں کو زندہ رہنے کیلئے انسانی امداد کی ضرورت ہے جب کہ افغانستان میں بیس لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سیو دی چلڈرن نامی عالمی تنظیم نے بھی خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں صحت عامہ کا کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے جس کے نتیجے میں موسم سرما کے دوران پانچ سال سے کم عمر کے ہزاروں بچوں کی ماہانہ اموات ہوں گی۔ جب کہ افغان گورننس کا ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہے۔ غیرملکی امداد کے مسلسل بہاؤ اور ترسیل کی پیش گوئی کی کمی نے یہاں کے کئی امدادی منصوبوں کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ افغانستان کے چونتیس میں سے اکتیس صوبوں کیلئے بنیادی اور ثانوی صحت کی دیکھ بھال اہم ذریعہ ہے‘ جن کے تحت دوہزار کلینک اور صحت کی سہولیات ہیں اور یہ لاکھوں شہریوں کو خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں اِس وقت صحت کی دیکھ بھال کی تیئس سو مراکز میں سے صرف 80سے 90 کام کر رہے ہیں جبکہ صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے ادارے ”شدید کمی کی حد“ سے پانچ گنا نیچے ہیں کیونکہ فی الوقت دس ہزار افغانوں کیلئے صرف چار اعشاریہ چھ ڈاکٹرز‘ نرسیں اور تربیت یافتہ دائیاں موجود ہیں۔ خواتین کی نقل و حرکت اور کمیونٹیز میں خوف کے ساتھ ادویات اور طبی سامان کی قلت اور عوام کی قوت خرید (مالی عدم استطاعت) نے افغان بحران کے پیمانے اور شدت میں مزید اضافہ کر رکھا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد نے خبردار کیا ہے کہ ہزاروں اموات صرف کورونا وبا کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔یہ افغانستان میں ابھرتے ہوئے بحرانوں کا سنگم ہے‘ جس میں داخلی طور پر نقل مکانی‘ شہروں کی طرف ہجرت‘ سرمائے کی پرواز اورغیر قانونی تجارت بڑھ رہی ہے جو وہاں کی جنگی معیشت کو برقرار رکھتی ہے۔ افغانستان میں ”ایڈ گورننس“ کا چیلنج نیا نہیں ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی بدعنوانی اور غلط حکمرانی عام تھی۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بین الاقوامی آڈیٹرز کے بہت سے سروے رپورٹ کرتے ہیں کہ افغانوں نے اپنی سابقہ حکومت کو شکاری کے طور پر دیکھا ہے جس میں بدعنوانی عام تھی۔ افغانستان دس سالوں میں قانون کی حکمرانی اور سیاسی استحکام کیلئے 100 میں سے ایک اور دو کے درمیان مسلسل درجہ بندی کرتا ہے اور ورلڈ بینک کے مطابق 364 میں سے 64 اضلاع میں دوہزاراُنیس تک کوئی سرکاری سول دفتر نہیں تھا۔ افغانستان میں موسم سرما شروع ہو رہا ہے اور امدادی رسد کم ہوتی جا رہی ہے جس سے حالات بد سے بدتر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ افغانستان کے پاکستان سے متصل کئی صوبے اور آبادی کے بڑے حصے کی معیشت تجارت پر انحصار کرتی ہے۔ یہ تجارت ایک بار پھر آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے لیکن تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں مجموعی طور پر اضافے کیلئے ابھی تک دوطرفہ سمجھوتہ طے ہونا باقی ہے۔ سرحدی گزرگاہوں کی تعداد میں اضافہ اور تجارتی پابندیوں کو کم کرنے جیسی لاجسٹک رکاوٹوں کو کم کرنے سے کل تجارت میں پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین اور دیگر ممالک اِس بات پر سوچ بچار کر رہے ہیں کہ وہ طالبان حکومت کو فی الوقت قبول نہ کرتے ہوئے کس طرح افغانستان کی مؤثر طریقے سے امداد کریں۔  (مضمون نگار پاکستان کی سینیٹ میں خارجہ امور کی کمیٹی کی چیئرپرسن‘ سابق سفیر اور اسلام آباد میں جناح انسٹی ٹیوٹ کی سربراہ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)
سینیٹر شیری رحمن