ممنوعہ بور کے اسلحہ کی بھرمار 

یہ خبر نہایت ہی دل دہلا دینے والی ہے کہ وطن عزیز میں ساڑے 5 سال میں ممنوعہ بور کے ہتھیاروں کے ہزاروں اسلحہ لائسنس جاری ہوئے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس دوران   برسر اقتدار ہر حکومت نے اس ضمن میں احتیاط نہیں برتی اب اگر ارباب اقتدار خود اتنی  بڑی تعداد میں ممنوعہ بور کے اسلحہ کے لائسنسں جاری کریں  گے تو پھر ملک میں قتل و غارت کا سلسلہ کیسے ختم ہوگا یہ بات تو طے ہے کہ جتنی کثرت سے ہلاکتیں ممنوعہ بور کے اسلحہ کے استعمال سے ہوتی ہیں اتنی غیر ممنوعہ بور کے استعمال سے نہیں ہوتیں‘اصولی طور پر ممنوعہ بور کا اسلحہ صرف اور صرف افواج پاکستان اور امن عامہ کے نفاذ پر مامورسکیورٹی اہلکاروں  کے پاس ہونا چاہئے‘ عام شہری کا  اس سے کیا لینا دینا‘ہاں اگر کوئی دشمن دار فرد اپنی جان کی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنا چاہتا ہے تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تحقیقات کے بعد اس کو غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ کا آرمز لائسنس جاری کر سکتا ہے‘میر علی شمالی وزیرستان میں اگلے روز ٹارگٹ کلنگ سے ایک مسیحی کی ہلاکت کے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز کے دشمن اس ملک کی بقاء کے خلاف کس حد تک جا سکتے ہیں‘فاٹا کے کئی مقامات میں عرصہ دراز سے کئی اقلیتوں سے تعلق  رکھنے والے لوگ کئی سالوں سے پر امن اور محفوظ زندگی گزار رہے ہیں اور آج تک ان کو کبھی بھی کسی نے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔یہ خبر خوش آئند ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے ایران کے صدر کی ایران کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کر لی ہے‘ کیا ہی اچھا ہوتااگر یہ دونوں ملک اپنے دیرینہ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر دوستی کا ایک نیا دور شروع کریں جو تمام عالم اسلام کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے چونکہ سعودی عرب کے شاہی خاندان میں اقتدار  اب جواں سال افراد کے ہاتھ آ رہا ہے اور پرانی نسل کے افراد بیماری یا  بڑھاپے کی وجہ سے ایوان اقتدار سے کنارہ کش ہو رہے ہیں اور  ان کی جگہ جواں سال نسل سے تعلق رکھنے والے شہزادے سنبھال رہے ہیں ان کی سیاسی  سوچ  موجودہ عمر رسیدہ ارباب اقتدار کی سوچ  سے کافی مختلف ہے لہٰذا قیاس کیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں شاید ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں خوشگوار تبدیلی رونما ہو جائے جو یقیناً عالم اسلام کے واسطے بہتر بات ہو گی۔منشیات کا ملک کے نوجوان طبقے میں بڑھتا ہوا تیزی سے استعمال بڑی تشویشناک بات ہے اس ضمن میں  فوری طور پر مناسب قانون سازی اور پھر اس کا سختی سے اطلاق از حد ضروری ہے۔ پرائیویٹ اور سرکاری سیکٹر میں چلنے والی بسوں‘پبلک پارکس  اور سرکاری اور نجی دفاتر میں بھی  سگریٹ نوشی پر پابندی لگانا ضروری ہے۔اطلاعات  ہیں کہ کئی تعلیمی اداروں کے اندر واقع  کینٹینز تک منشیات فروشوں کی رسائی ہو چکی ہے اور وہ چرس اور آئس سے لیس سگریٹ طالب علموں کو فروخت کر رہے ہیں‘ والدین کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات پر کڑی نظر رکھیں کہ اپنے بچوں کو وہ جو روزانہ پاکٹ منی دیتے ہیں اس کا استعمال وہ کہاں کر رہے ہیں‘اس ضمن میں ان کا وقتاً فوقتاً ان تعلبمی اداروں کے اساتذہ کے ساتھ قریبی رابطہ بھی  ضروری ہے کہ جہاں ان کے بچے زیر تعلیم ہیں۔یہ امر خوش آئند  ہے کہ خیبر پختونخوا میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے پچھلے روز جو نا خوشگوار امن عامہ کا مسئلہ پیدا ہوا تھا‘وہ اب  حکام بالا کی گفت و شنید کے بعد  حل کردیا گیا ہے۔یہ امر بھی اطمینان بخش ہے کا اس صوبے کے گورنر اور وزیر اعلیٰ کے درمیان ورکنگ ریلیش شپ بہتر ہو رہی ہے۔
اسے کہتے ہیں دوراندیشی جو چین کی لیڈرشپ میں کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہے‘ مغرب کے رہنماؤں خصوصاً امریکی صدور نے ہر دور میں کمیونزم کے معاشی نظام میں طرح طرح کے کیڑے نکالنے کی کوشش کی ہے دوسری جنگ عظیم کے  بعد ان کی تنقید کا زیادہ تر جو حدف تھا وہ روس کے صدر تھے اور جب لینن کے سیاسی منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد ماؤزے تنگ کی قیادت میں کمیونزم کے نظام معیشت نے چین میں سر اٹھایا تو مغرب کے رہنماوں نے ان کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا جو ہنوز جاری و ساری ہے چین نے کمیونسٹ قیادت کے زیر سایہ زندگی کے ہر میدان میں 1949 ء سے لے کر اب تک جو ترقی کی ہے اس نے مغرب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے تیسری دنیا کے غریب ممالک کے واسطے آج چین ایک رول ماڈل کے طور پر سیاست اور معیشت کے آسمان پر ایک روشن ستارے کی طرح چمک رہا ہے۔