برسرزمین حقائق اور مکالمہ

وطن عزیز کو مختلف شعبوں میں درپیش چیلنج اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان سے نمٹنے کیلئے دیگر اقدامات کے ساتھ سیاسی استحکام یقینی بنایا جائے‘ اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ ملک کا سیاسی منظر نامہ ایک طویل عرصے سے شدید تناؤ اور کشمکش کا شکار ہے‘ پارلیمنٹ کے اندر تلخی کے ماحول میں ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی گولہ باری کا سلسلہ معمول بن چکا ہے‘ ایوان سے باہر سیاسی اجتماعات میں قوت کے مظاہروں کے ساتھ لانگ ماچ اور دھرنے بھی اس تناؤ کے ماحول کا حصہ رہے ہیں‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جمہوریت میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت اور حزب اختلاف کو اپنا اپنا مؤقف پیش کرنا ہوتا ہے تاہم اس سارے عمل میں ضروری ہے کہ مجموعی درجہ حرارت کو ایک حد تک رکھا جائے‘ اس کے ساتھ اہم قومی امور کو سلجھانے کیلئے مل بیٹھ کر بات کرنے کی گنجائش رکھنا بھی ضروری ہے‘ ضروری یہ بھی ہے کہ ناگزیر قانون سازی کے کام میں بھی ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے‘ ایک دوسرے کا مؤقف کھلے دل کے ساتھ سنا جائے‘ پیش نظر یہ بھی رکھنا ہو گا کہ اس وقت ملک کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کیلئے ایسی طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو تسلسل کی حامل ہو اور حکومتوں کی تبدیلی سے کسی بھی طور متاثر نہ ہونے پائے‘ اس مقصد کیلئے ناگزیر ہے کہ طے پانے والی حکمت عملی میں وسیع مشاورت شامل ہو۔ قومی قیادت کو مدنظر رکھنا ہو گا کہ اس وقت ملک میں اقتصادی شعبے کی مشکلات میں سب سے زیادہ غریب اور متوسط طبقہ متاثر ہو رہا ہے‘ کمر توڑ مہنگائی کے ہاتھوں صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ غریب کیلئے گھر کا چولہا جلانا مشکل ہو چکا ہے‘ جرائم کا گراف بڑھتے بڑھتے تشویشناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے‘ بیروزگاری کے ہاتھوں نوجوان مایوس ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ بیرون ملک ملازمتوں کیلئے متعلقہ دفاتر کے سامنے لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں‘ ملک میں لوگ شہری سہولتوں کے فقدان کے ہاتھوں بھی پریشان ہیں‘ سروسز کے اداروں میں خدمات کا ملنا محال ہے مریض سرکاری علاج گاہوں میں دھکے کھانے کے بعد نجی کلینکس اور ہسپتالوں میں علاج کرانے پر مجبور ہوتے ہیں‘ ماں باپ تمام اخراجات پر کٹ لگا کر کمسن بچوں کی تعلیم کیلئے فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہیں جبکہ دوسری جانب اربوں روپے کے فنڈز مختص ہونے کے باوجود عام آدمی سرکاری تعلیمی اداروں پر اس وقت اعتماد نہ ہونے کے باعث پرائیویٹ سکولوں کو ترجیح دیتا ہے‘ اسی شہری کو بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے کے باوجود بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ ہماری قومی قیادت اہم امور یکسو کرنے اور عوام کو درپیش مشکلات کے خاتمے کیلئے مکالمے کی راہ اختیار کرے۔