گرانی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے‘ مارکیٹ میں مصنوعی مہنگائی عروج پر ہے‘ حکومتی سطح پر دیئے جانے والے اعداد و شمار جتنے بھی حوصلہ افزاء ہوں برسرزمین صورتحال مختلف ہے‘ انتظامیہ نرخنامے جاری کر کے اپنی ڈیوٹی پوری کر دیتی ہے‘ کبھی کبھار کسی بڑے سٹور‘ ریسٹورنٹ‘ بیکری یا میٹ شاپ پر چیکنگ بھی ہوتی ہے لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھ پاتی‘ مصنوعی اور خود ساختہ گرانی کے ساتھ ملاوٹ انسانی صحت اور زندگی کے لئے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے‘ کبھی کبھار کی جانچ پڑتال میں مردہ مرغیوں کی فروخت‘ مضر صحت گوشت کی مارکیٹ میں فراہمی‘ دودھ میں مضر صحت کیمیکلز کی ملاوٹ‘ جعلی اور دو نمبر مشروبات سے متعلق انتظامیہ کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو تفصیل جاری ہوتی ہے‘ اس کے بعد طویل خاموشی چھا جاتی ہے‘ بات کھانے پینے کی اشیاء پر ختم نہیں ہوتی بعض اوقات جعلی اور دو نمبر ادویات بھی برآمد ہونے کا کہا جاتا ہے جو پہلے سے بیمار مریضوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ بات ہے‘ انتہائی مہنگے داموں اشیائے خورد و نوش خریدنے والے غریب شہری معیار کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہی بیمار پڑنے پر انہیں دوائیں بھی جعلی اور غیر معیاری ملیں تو یہ اور زیادہ پریشان کن ہے۔ ان شہریوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں جس سے متعلق سرکاری اداروں کی متعدد رپورٹیں ریکارڈ پر موجود ہیں‘ جن شہری علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کا انتظام موجود بھی ہے تو اس میں واٹر سپلائی کے لئے بچھائی جانے والی بوسیدہ اور زنگ آلود پائپ لائنیں پانی کو آلودہ اور متعدد سنگین بیماریوں کا ذریعہ بنا رہی ہیں‘ ان پائپ لائنوں کی تبدیلی کے متعدد بیانات جاری ہو چکے ہیں تاہم عملی طور پر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا‘ اس برسرزمین تلخ حقیقت سے چشم پوشی کسی طور ممکن نہیں کہ ہمارے ہاں سرکاری اعلانات اور اقدامات قابل اطمینان ضرور ہوتے ہیں تاہم ان کے برسرزمین عملی نتائج کا انتظار ہی رہ جاتا ہے‘ متعدد امور سے متعلق یہ بتا دیا جاتا ہے کہ معاشی صورتحال ان کی متحمل نہیں‘ دوسری جانب منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے مراحل میں پیش نظر رکھا جا سکتا ہے کہ متعدد اقدامات جو عوام کے لئے فوری طور پر ریلیف کا ذریعہ بن سکتے ہیں صرف بہتر منصوبہ بندی اور کڑی نگرانی کے محفوظ نظام سے جڑے ہوئے ہیں‘ کیا ہی بہتر ہو کہ سیاسی گرما گرمی کے ساتھ اگر عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ٹھوس حکمت عملی ترتیب دی جائے تاکہ غریب شہریوں کو ریلیف کا احساس ہو۔