سب اچھا کی رپورٹس پر انحصار؟

حکومت مرکز میں ہو یا کسی بھی صوبے میں عوام کی فلاح و بہبود کیساتھ تعمیر و ترقی کیلئے اقدامات کو ترجیح  ہی قرار دیتی ہے‘ بجٹ مختص بھی ہوتے ہیں‘ فنڈز جاری بھی ہوتے ہیں کم اور زیادہ کے فرق سے ہر حکومت وقت کی ضروریات کے مطابق اصلاح احوال کیلئے اقدامات اٹھاتی بھی ہے‘ اس کے باوجود عوام کو ریلیف اور اصلاح احوال کے ثمر آور نتائج کا انتظار ہی رہتا ہے‘ حکومتی اقدامات اعلانات اور عزائم کے برسرزمین عملی نتائج کی راہ میں حائل سقم سب اچھا کی رپورٹس پر انحصار کی روش ہے اربوں روپے کے فنڈز ہیلتھ سیکٹر کیلئے جاری ہوتے ہیں بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات انتظامی سطح پر نت نئے تجربات کے باوجود سرکاری علاج گاہوں کے برآمدوں میں زمین پر لیٹے مریض ثمر آور نتائج اور سرکاری اعلانات کے درمیان فاصلوں کی نشاندہی کرتے ہیں‘یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں کی جانب سے درجنوں اعلانات کے باوجود برسرزمین ریلیف کا احساس نہ پانے والے مریض سرکاری علاج گاہوں میں پورا دن ایک سے دوسرے کمرے میں ریفر ہونے کے بعد خودبخود اپنے آپ کونجی کلینکس اور ہسپتالوں کو ریفر کردیتے ہیں یہاں ان کو تمام چارجز جو کسی بھی قاعدے اور قانون کے پابند نہیں ہوتے ادا کرنا پڑتے ہیں‘ دوسری جانب سرکاری ہسپتالوں سے ہر ماہ بڑے بڑے اعدادوشمار پر مشتمل رپورٹس جاری ہوتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ اتنے مریض آئے اور ان کو فلاں فلاں شعبوں میں معیاری خدمات فراہم کی گئیں اس سارے عمل میں سقم یہ ہے کہ متعلقہ ذمہ دار حکام سب اچھا کی رپورٹ پر ہی انحصار کرتے ہیں‘ اگر آن سپاٹ جاکر پوری صورتحال کا جائزہ بغیر کسی اعلان وپروٹوکول کے لیا جائے تو پتہ خودبخود چل سکتا ہے کہ مریض اور ان کے تیمار دار کس طرح دھکے کھا رہے ہوتے ہیں ایسے میں اچھے انتظامات کے ساتھ کسی ایک ادارے میں بہتری ہو بھی تو مجموعی منظرنامے میں وہ دکھائی بھی کم ہی دے گی‘ بات صرف یہاں تک نہیں ریونیو دفاتر میں دستاویزات کی تیاری ہو یا پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر کا اندراج‘مکان کے نقشے کی منظوری ہو یا پھر بجلی اور گیس کیلئے کنکشن لینا ہو یا بچوں کیلئے معیاری سکول کی تلاش مشکلات ہر جگہ دکھائی د یتی ہیں‘میونسپل سروسز کے رجوع کرنے پر فنڈز اور اختیارات کی تقسیم کا پورا قصہ سننے کو مل جاتا ہے‘درپیش صورتحال متقاضی ہے کہ مہیا وسائل کے درست استعمال اور عوام کو عملی ریلیف دینے کیلئے چیک اینڈ بیلنس کا محفوظ نظام دیا جائے تاکہ حکومتی اقدامات کے ثمر آور نتائج نظرآئیں۔