معاملات سلجھانے کی ضرورت



وطن عزیز کے سیاسی منظرنامے کی گرماگرمی کا سلسلہ بدستور جاری ہے جبکہ دوسری جانب اہم قومی معاملات متقاضی ہیں کہ انہیں سلجھانے کیلئے باہمی مشاورت یقینی بنائی جائے‘ ملک میں یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنیوالی حکومتیں درپیش صورتحال کو دوسروں کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ قرار دے کر اصلاح احوال کیلئے بڑے بڑے اہداف کا تعین کر دیتی ہیں اس سارے ماحول میں ایک جانب قرضوں کے حجم میں قابل تشویش اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف اس کے نتیجے میں غریب عوام کیلئے زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے ایک طرف معاشی شعبے کی مشکلات ہیں تو دوسری طرف بدانتظامی اور بے جا کی مداخلت کے نتیجے میں ماضی قریب کے منافع بخش ادارے آج تنخواہیں ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے اور ان پر برائے فروخت کے بورڈ لگتے چلے جارہے ہیں‘ حکومت کی جانب سے صرف یوٹیلٹی سٹورز کے کیس میں230 کروڑ روپے کی بے قاعدگیوں کا کہا جا رہا ہے ‘یوٹیلٹی سٹورز کیساتھ15دیگر محکمے ختم کرنے کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے اس صورت میں قابل تشویش بات ہزاروں ملازمین کا مستقبل ہے جس کیلئے موثر انتظام کی ضرورت ہے‘ ملک کو درپیش مشکل حالات میں بے روزگاری کی اذیت ناقابل برداشت ہو سکتی ہے‘ اس ساری صورتحال کا تقاضہ اصلاح احوال کیلئے حکمت عملی کا متقاضی ہے‘ وسیع سیاسی مشاورت سے طے پانے والی حکمت عملی اس انداز سے محفوظ بنائی جانی چاہئے کہ یہ حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہونے پائے‘ اس میں بڑے بڑے ایسے منصوبوں کے اعلانات سے گریز ہی بہتر ہے کہ جوکہ ناقابل عمل ہوں‘ باہمی مشاورت اور تکنیکی مہارت کی حامل منصوبہ بندی میں ترجیحات کا تعین کرتے وقت برسرزمین حقائق کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے‘ ایک ایسے وقت میں جب اقتصادی شعبے میں دشواریوں کے ساتھ بے روزگاری بھی بڑے مسئلے کی حیثیت حاصل کئے ہوئے ہے اگر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار پر توجہ مرکوز کی جائے تو فوری نوعیت کے ثمر آور نتائج کا حصول ممکن ہے اس ضمن میں وزیراعظم شہبازشریف سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی فعالیت کا عندیہ دے بھی چکے ہیں‘ وفاق ایوان ہائے صنعت وتجارت کا کہناہے کہ ملک میں اس وقت52 لاکھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار ہیں اس طرح اس سیکٹر کا ملک کی مجموعی جی ڈی پی میں حصہ40 فیصد بنتا ہے برآمدات میں بھی ایس ایم ایز کا حصہ31 فیصد ہے جبکہ ملازمتوں میں72 فیصد شیئر ایس ایم ای سیکٹر کا ہے کیا ہی بہتر ہو کہ درپیش چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی قیادت کم از کم اہم امور پر مل بیٹھ کر حکمت عملی ترتیب دے۔