قرضے کے اثرات اور عوام

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ نئے قرضے کیلئے معاملات طے ہونے کی اطلاعات کے اثرات حصص کی منڈی میں دکھائی دینے لگے ہیں‘ خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز سٹاک ایکسچینج میں ابتدائی ٹریڈنگ کے دوران تیزی کا رجحان رہا‘ اس کے ساتھ کے ایس ای 100 انڈیکس میں 542 پوائنٹس اضافے کے ساتھ 80 ہزار کی نفسیاتی حد بحال ہو گئی جبکہ انڈیکس صبح ہی 80 ہزار 33 تک پہنچ گیا‘ ذمہ دار حکام کا خیال ہے کہ صورتحال میں بہتری آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کا قرضہ منظور ہونے کے امکانات اور سٹیٹ بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی میں نرمی کے ساتھ آئی‘ سٹاک مارکیٹ میں بہتری بھی قابل اطمینان سہی اور ملک میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کا فروغ بھی حوصلہ افزاء سہی حکومت کی جانب سے طویل عرصے سے مشکلات کے گرداب میں آنے والی معیشت کو بحال کرنے کیلئے تمام کوششیں بھی قابل اطمینان ہیں‘ اس سب کے ساتھ ضروری ہے کہ حالات میں کوئی بھی بہتری آنے کے ثمرات عوام تک پہنچانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی کے تحت اقدامات اٹھائے جائیں‘ عوام کو آئے روز زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی خبریں دی جاتی ہیں ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اکانومی کو جلد قدموں پر کھڑا کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ دریں اثناء جس قرضے کے اجراء کی خبر آتے ہی حصص کی منڈی میں تیزی آتی ہے زرمبادلہ بڑھ جاتا ہے اور بہت ساری ادائیگیاں ممکن ہونا شروع ہو جاتی ہیں‘ اس قرضے کی منظوری کیلئے عائد ہونے والی ساری شرائط کا بوجھ ملک کے غریب عوام کو مہنگائی کی صورت برداشت کرنا پڑتا ہے‘ قرضے کی منظوری سے سرمایہ کاری کا عمل تیز بھی ہو یا اقتصادی اشاریوں میں جو بھی تبدیلی آئے‘ عوام کیلئے یہ سب اس وقت تک بے معنی ہیں جب تک برسر زمین ریلیف کا احساس عام شہری کو نہیں ہو پاتا‘ درپیش حالات میں ملک کا عام شہری کمر توڑ مہنگائی‘ بنیادی سہولتوں کے فقدان‘ سروسز کی فراہمی میں دشواریوں‘ بے روزگاری‘ توانائی بحران میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے‘ اس شہری کو فوری ریلیف دینے کیلئے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے‘ یہ ٹاسک دوچار اجلاسوں اور چند اعلانات سے مکمل ہونے والا نہیں‘ مارکیٹ کنٹرول ہو یا پھر عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی‘ سروسز کا معیار بہتر بنانا ہو یا پھر بے روزگاری کا خاتمہ اس سب کیلئے سب کو مل بیٹھ کر حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی‘ بصورت دیگر مسائل کا گراف بڑھتا رہے گا بھلے اعداد و شمار کس قدر بہتر کیوں نہ ہوں۔