بلاتاخیر اقدامات کی ضرورت

میڈیا رپورٹس میں بتایا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول میں رکاوٹیں ختم ہوگئی ہیں‘کسی بھی ریاست میں قرضوں کے حجم میں ہونے والے اضافے کو افسوسناک ہی قرار دیا جاتا ہے وطن عزیز کے مجموعی اقتصادی منظرنامے میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے نئے قرضے کی منظوری کے امکان پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے اس قرضے کے اجراء کیساتھ وطن عزیز پر قرضوں کے بھاری بوجھ کا والیوم مزید بڑھ جائے گا دوسری جانب قابل تشویش یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جن کی تادم تحریر ذمہ دار دفاتر نے وضاحت نہیں کی کہ حکومت کی جانب سے650 ارب روپے کی آمدنی کیلئے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے‘ اس ضمن میں ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کیلئے نان فائلرز کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا اس میں کاروائی ان فائلرز کے خلاف بھی ہوگی جو کم فائلرز کے زمرے میں آئیں گے‘ اگلے مرحلے میں جائیدادوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح اور ٹریکٹروں سمیت دیگر اشیاء پر جی ایس ٹی بڑھانے پر بھی غور کیا جائیگا‘ مہیا رپورٹس کے مطابق بعض شہروں میں جائیدادوں کی قیمتوں کے جدول پر بھی نظرثانی کی جارہی ہے دوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ ایف بی آر نے جی ایس ٹی کی شرح میں اضافے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے18فیصد کو معیاری قرار دیا ہے تاہم اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ایسی اشیاء کہ جن پر جی ایس ٹی کم ہے ان پر ٹیکس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ذمہ دار دفاتر درپیش اقتصادی منظرنامے میں بتا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں اور یہ کہ اس ضمن میں تمام ضروری کاروائی جلد پوری کرلی جائے گی‘ اور یہ کہ 25ستمبرکو قرضہ منظور ہو سکتاہے‘ دوسری جانب بینک دولت پاکستان نے شرح سود میں 2فیصد کمی کا اعلان کیا ہے‘نئے اعلان کیساتھ یہ شرح17.5 فیصد پر آگئی ہے وطن عزیز کو اقتصادی شعبے میں طویل عرصے سے انتہائی مشکلات کا سامنا ہے اس صورتحال کی ذمہ داری کسی ایک پر نہیں ڈالی جا سکتی قومی قیادت بھی عرصے سے ایک دوسرے کو اس کی ذمہ دار قرار دیتی چلی آرہی ہے تاہم اس سب کے باوجود یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں میں قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا ہی چلا جارہاہے وقت کا تقاضہ ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دینے کی بجائے اب اصلاح احوال کی جانب پیش رفت کا ہے‘ اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف ایک سے زائد مرتبہ اپنی حکومت کا عزم دہرا چکے ہیں‘ اتنے بڑے ہدف کا حصول متقاضی ہے اس بات کا کہ اب بلاتاخیر معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے اور عوام کو ریلیف دینے  کے لئے مربوط اور موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔