ملک کے سیاسی منظرنامے میں ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی گولہ باری شدت سے جاری ہے‘ یہ سلسلہ عرصے سے چل رہا ہے اور مستقبل قریب میں اس کی شدت اور حدت میں کوئی کمی ہوتی دکھائی نہیں دیتی جبکہ دوسری جانب بعض اعدادوشمار عوام کیلئے تشویشناک صورت اختیار کئے ہوئے ہیں وفاقی وزارت توانائی کی جانب سے گزشتہ روز ایوان میں جمع کرائے جانے والے ایک تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ وطن عزیز میں پٹرولیم کے شعبے کا گردشی قرضہ2 ہزار897 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے‘ اتنے بڑے حجم کے حامل اس قرضے کی تفصیلا ت میں بتایا جا رہا ہے کہ اس میں بڑا حصہ گیس کے سیکٹر کا ہے‘ ٹیرف میں آنے والے فرق کی بڑی وجہ2023ء کے دوران صارفین پر گیس بلوں میں اضافے کا بوجھ نہ ڈالے جانا بتائی جارہی ہے دریں اثناء ملک میں جاری توانائی بحران اور اس کے نتیجے میں عوام پر ڈالے جانے والے لوڈ کے ساتھ قابل توجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت وطن عزیز میں سرکاری اداروں کے ذمے بجلی بلوں کی مد میں 2کھرب56 ارب روپے واجب الادا ہیں اس رقم میں وفاق کے اداروں کے ذمے47 ارب81 کروڑ روپے جبکہ صوبائی حکومتوں کے ذمے1کھرب51ارب76 کروڑ روپے ہیں‘ملک کو اقتصادی شعبے میں درپیش بے پناہ مشکلات اپنی جگہ حقیقت ہیں اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں اس پر بحث اپنی جگہ ہے‘ اس سیکٹر میں درپیش مشکلات کے نتیجے میں قرضوں کا انبار کس طرح بڑھتا چلا جا رہا ہے یہ بھی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے اس سب کے ساتھ ملک کو معیشت کے شعبے میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اقدامات میں ایک رکاوٹ توانائی بحران ہے‘طلب کے مقابلے میں بجلی اور گیس کی کم رسد اپنی جگہ حقیقت ہے تاہم ضرورت کے مطابق بجلی اور گیس کی پیداوار بڑھانے کے لئے اقدامات نہ اٹھائے جانا اپنی جگہ ہے‘ سستی بجلی کے حصول کے لئے پن بجلی گھروں کے قیام اور ملک میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر میں سست روی الگ سے مشکلات کا سبب بنی ہوئی ہے‘ بجلی اور گیس کا ضیاع اور لائن لاسز اصلاح احوال کے متقاضی ہیں اس کے ساتھ ضرورت بدانتظامی کے خاتمے کی ہے‘گردشی قرضے ہوں یا پھر واجبات کا تشویشناک والیوم ضرورت ہے کہ ذمہ دار دفاتر مل بیٹھ کر کم از کم ضروری امور کو بروقت نمٹائیں اس سب کے لئے ترجیحات کا تعین بھی ناگزیر ہے۔