ملک ایک عرصے سے گرما گرمی‘ تناﺅ اور کشمکش کے شکار سیاسی منظرنامے میں پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے میثاق پارلیمنٹ کی بات کی‘ انہوں نے اس مقصد کیلئے کمیٹی بنانے کی تجویز بھی دی‘ اس سے قبل وطن عزیز میں میثاق معیشت کی بات بھی ہوئی جبکہ میثاق جمہوریت بھی ریکارڈ پر موجود ہے اس وقت ملک کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں اقتصادی شعبے کی مشکلات تشویشناک حد تک پہنچ چکی ہیں دوسری جانب ان مشکلات کا اثر عوام پر کمر توڑ مہنگائی کی صورت میں پڑ رہا ہے‘ اقتصادی منظرنامے کے تناظر میں حکومتوں کی جانب سے قرضے اٹھائے جانے کا سلسلہ طویل عرصے سے چلا آرہا ہے ‘قرض دینے والوں کی جانب سے ہر قرضے کے اجراءسے پہلے مطالبات کی فہرست سامنے آتی ہے ان مطالبات اور شرائط پر عملدرآمد کو مجبوری قرار دے کر ان کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے‘اسکے ساتھ ملک کی اکانومی کھربوں روپے کی مقروض ہو چکی ہے اور قرضوں کے والیوم میں اضافے کا تسلسل ہنوز جاری ہے ابھی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے نیا قرضہ منظور ہونے پر ملک کے قرضوں کا حجم مزید بڑھ جائیگا اسکے ساتھ عوام کو بھی منی بجٹ کا عندیہ دیا جارہا ہے ۔ ایسے میں ضرورت معیشت کے استحکام اور عوام کو درپیش مشکلات کے حل کی ہے اس سب کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر آگے چل کر اقتصادی شعبے کے چیلنج مزید مشکلات کا باعث بن جائینگے اور اصلاح احوال کیلئے اقدامات بھی ممکن نہیں رہیں گے اسی طرح سیاست کے میدان کی گرما گرمی کا سلسلہ بھی عرصہ سے جاری ہے جس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ سنبھالنے والے الفاظ کی گولہ باری میں ہی لگے رہتے ہیں‘ اس سے قانون سازی اور اہم قومی امور بات چیت کے ذریعے طے کرنے میں مشکلات حائل ہورہی ہیں ‘پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاسی میدان کی گرما گرمی نے تناﺅ کا ماحول بنا کر رکھا ہے ‘کیا ہی بہتر ہو کہ سیاسی درجہ حرارت حد اعتدال میں رکھنے کے ساتھ اہم قومی امور مل بیٹھ کر یکسو کئے جائیں اور اس سارے عمل میں ایک دوسرے کا موقف کھلے دل کے ساتھ سنا جائے ‘مدنظر رکھنا ہوگا کہ ملک میں عام آدمی قیادت کا انتخاب کرتا ہے بھلے اس کے منتخب کردہ اراکین حکومت بنائیں یا پھر حزب اختلاف کا حصہ بنیں‘ اس عام آدمی کی نظر اپنے مسائل کے حل کے لئے منتخب قیادت کے اقدامات پر لگی ہے‘ اس عام آدمی کا ریلیف اقتصادی شعبے کے استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے کسی بھی ریاست میں معاشی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی طور پر بھی استحکام موجود ہو‘ کیا ہی بہتر ہو کہ سینئر قومی قیادت اس حوالے سے اپنا فعال کردارادا کرے۔