وفاقی دارالحکومت سے خبررساں ایجنسی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کسی ادارے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے سے متعلق حتمی فیصلے تک پہنچنے کیلئے 1ارب 99 کروڑ روپے خرچ ہوگئے ہیں بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی نجکاری سے متعلق مشورہ ملنے کے بعد اس پر عمل بھی نہیں کیا گیا‘ ایوان بالا کی نجکاری کمیٹی کے اجلاس میں 5 سال کے دوران پرائیویٹائزیشن کے عمل پر آنیوالے اخراجات سے متعلق دیئے جانے والے اعدادوشمار قابل تشویش ہیں سیکرٹری نجکاری نے اجلاس کو بتایا کہ پانچ سال میں ان کے ادارے کی ٹرانزیکشنز سے4ارب 38 کروڑ روپے آمدن ہوئی جبکہ اس سارے عمل کے دوران اخراجات 1 ارب40 کروڑ روپے رہے‘ آپریشنل اخراجات اس کے علاوہ ہیں اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ نیشنل پاور کی نجکاری کیلئے ایڈوائزر کو 33کروڑ روپے دیئے گئے‘ قابل تشویش یہ بھی ہے کہ سٹیل ملز کی نیلامی کیلئے صرف ایک بڈر آیا‘ دریں اثناء قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کے کیس میں 5 خریدار بولی دہندگان کو75 فیصد حصص دینے کا فیصلہ ہوا ہے اس ضمن میں اعدادوشمار کے مطابق فوری طور پر425 ارب جبکہ3 سال میں 50 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی پی آئی اے کے معاملے میں 6 میں سے 3کمپنیاں زیادہ گرمجوشی دکھا رہی ہیں۔ وطن عزیز کو معیشت کے سیکٹر میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے‘ دوسری جانب ماضی قریب کے بعض منافع بخش ادارے آج ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے ایسے میں متعدد اداروں پر برائے فروخت کے بورڈ لگانے پڑے وزیراعظم شہبازشریف درپیش ساری صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے اس سے ہر صورت نکلنے کاعزم باربار دہرارہے ہیں‘ حکومت بہت سارے تلخ فیصلے لینے پر بھی مجبور ہے‘ شہبازشریف اصلاح احوال کیلئے اہداف کے تعین اور پھران کے حصول کی جانب بڑھنے کیلئے کنکریٹ حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں تاہم دوسری جانب اعدادوشمار کے ساتھ جب بعض بڑے اخراجات کی تفصیل سامنے آتی ہے تو ہر شہری صورتحال سے پریشان ہو جاتا ہے‘ اصلاح احوال کا پورا عمل دیگر تمام تر اقدامات کیساتھ اس بات کا متقاضی ہے کہ غیر ضروری اخراجات سے گریز کیا جائے‘ اس مقصد کیلئے ضرورت سخت فنانشل ڈسپلن کی ہوتی ہے اس میں صرف عوام ہی پر لوڈ نہیں ڈالا جانا چاہئے بلکہ غیر ضروری اخراجات اعلیٰ سطح پر بھی کم کئے جانا ضروری ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ اس مقصد کیلئے چیک اینڈ بیلنس کا محفوظ نظام دیا جائے اور غیر ضروری اخراجات کے حوالے سے یہ بھی اقدام ضروری ہے کہ اس ضمن میں بل ہی پاس نہ ہونے دیا جائے۔