وفاقی حکومت کی جانب سے ڈاﺅن اوررائٹ سائزنگ کیساتھ بچت کیلئے متعدد اقدامات کا سلسلہ جاری ہے یہ سب اپنی جگہ قابل اطمینان ہونے کے ساتھ متقاضی ہے کہ اس کے دائرے کو مزید وسیع کیا جائے‘ بچت پلان ہو یا انتظامی مشینری کے سیٹ اپ میں کوئی تبدیلیاں ‘ضروری یہ بھی ہے کہ ان میں ملازمین کا مفاد مقدم رکھا جائے اور انہیں بے روزگار ہونے سے ہر صورت بچایا جائے یہ سب اتنا دشوار بھی نہیں بات صرف بہتر اور محفوظ حکمت عملی کی ہے جو تکنیکی مہارت سے آراستہ ہو حکومت کی جانب سے بچت اقدامات کے ضمن میں اب تک اٹھائے جانے والے دیگر اقدامات کے ساتھ اب وزیراعظم شہبازشریف کے منظور کردہ اقدامات کے خدوخال بھی سامنے آئے ہیں‘ خبررساں ایجنسی کی جانب سے متعدد وزارتوں کو ختم کرنے کا جو فارمولہ سامنے آیا ہے اس کے مطابق وزارت صنعت‘ آئی ٹی‘ کشمیر افیئرز‘ سیفران اور ہیلتھ سروسز کی60 فیصد اسامیاں ختم کرنے اور متعدد دفاتر کے انضمام کیلئے تیاریاں کی جارہی ہیں حکومت کی جانب سے اس ضمن میں دیگر اقدامات کیساتھ متعدد دفاتر بند کرنے اور ورچوئل یونیورسٹی کو وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے وطن عزیز میں اس وقت معیشت کے شعبے میں درپیش چیلنج ایک تلخ حقیقت کی حیثیت رکھتے ہیں ان چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات کی ضرورت سے انکار کسی طور ممکن نہیں اس حوالے سے اگر مزید خاموشی برقرار رکھی جاتی ہے تو اس کا مطلب صورتحال کو مزید مشکلات سے دوچار کرنا ہی ہوسکتا ہے‘ اب اس پر مزید خاموشی اس لئے بھی ممکن نہیں رہی کہ قرضوں کے اجراءکیلئے عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پر عملدرآمد بھی مجبوری بن چکا ہے کفایت شعاری کی نئی پالیسی کو اس تناظر میں لازمی بھی گردانا جا سکتا ہے‘ اخراجات میں کمی کے حوالے سے گزشتہ روز وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وفاقی وزارت خزانہ نے ایک باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کر دیا ہے اس اعلامیہ کے مندرجات میں سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے نئی گاڑیوں کی خریداری روکنے کے ساتھ بیرونی دوروں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے حکومتی فیصلوں کو وقت کی ضرورت اور اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر احساس و ادراک کا عکاس ہی قرار دیا جا سکتا ہے تاہم ان فیصلوں کا ثمر آور ہونا اس بات سے مشروط ہے کہ ان پر عملدرآمد کس حد تک ہوتا ہے عملدرآمد صرف اسی صورت ممکن ہے کہ اس حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کا محفوظ نظام ترتیب دیا جائے اسکے ساتھ کابینہ اجلاسوں کے ایجنڈے پر یہ پوائنٹ ضرور رکھا جائے کہ پوری پلاننگ پر عملدرآمد کس حد تک ہو رہاہے۔