وطن عزیز میں سیاسی گرماگرمی کا گراف حد اعتدال سے بڑھنے پر بعض سینئر رہنما درجہ حرارت کم کرنے کیلئے ایک طرح کی ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے فریقین سے رابطے اور ملاقاتیں بھی کرتے تھے‘ اس کے ساتھ سیاسی منظر نامے کے رخ کو دیکھ کر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اکثر متحد ہو جاتی تھیں تاہم اس میں بھی سینئر قیادت اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ٹمپریچر کو زیادہ بڑھنے نہیں دیتی تھی‘ اس وقت بھی ملک میں سیاست کا میدان گرم ہے‘ گرما گرمی کا سلسلہ عرصے سے چلا آرہا ہے اس جاری سلسلے میں حکومتوں کی تبدیلیوں پر اپوزیشن ارکان ٹریژری بنچوں پر آئے اور حزب اقتدار والے جاکر اپوزیشن کی سائیڈ پر بیٹھے‘ بعدازاں پھر حکومت بدلنے پر بنچوں کی تبدیلی بھی عمل میں آئی تاہم اس سارے عرصے میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا رہا ہے ‘دوسری جانب ملک کو درپیش چیلنجوں اور خصوصاً اقتصادی شعبے کی مشکلات اس بات کی متقاضی رہی ہیں کہ اہم امور کو یکجا ہو کر یکسو کیا جائے اور سیاسی استحکام یقینی بنایا جائے ‘یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت اکانومی سیکٹر کی مشکلات سے نکلنے کیلئے محفوظ حکمت عملی تشکیل دی جائے جس میں مشاورت کا دائرہ بھی وسیع ہو‘ اور اس پر عملدرآمد بھی اس طرح سے محفوظ ہو کہ حکومتوں کی تبدیلیاں اسے متاثر نہ کر پائیں ‘اس پوری صورتحال میں مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ معاشی شعبے کی مشکلات میں سب سے زیادہ متاثر ملک میں غریب شہری ہو رہاہے کمرتوڑ مہنگائی‘ بنیادی سہولتوں کے فقدان‘ خدمات کی معیاد کے مطابق عدم دستیابی اور بے روزگاری نے اس شہری کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ اب دیر آید درست آید کے مصداق ملک کی سینئر قیادت سیاسی درجہ حرارت کو معتدل رکھنے‘ سیاسی استحکام یقینی بنانے اور اہم امور مل بیٹھ کر سلجھانے کی راہ ہموار کرنے کے لئے بات چیت کا ڈول ڈالے۔
داخلوں کا مسئلہ؟
ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈز کے میٹرک نتائج میں طلباءو طالبات کی بڑی تعداد نے اعلیٰ گریڈ حاصل کئے‘ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی داخلوں کا مرحلہ شروع ہوا جو تادم تحریر جاری ہے‘ سرکاری کالجوں کا میرٹ ریکارڈ حدوں کو چھو رہا ہے جبکہ نجی اداروں کے چارجز ہر ایک کے بس میں نہیں‘ ایسے میں ضرورت کامیاب سٹوڈنٹس اور ان کے لئے مہیا تعلیمی اداروں میں نشستوں کو دیکھنے کی ہے ‘ساتھ ہی ضروری ہے کہ ذمہ دار دفاتر پرائیویٹ اداروں کو اعتماد میں لیں ‘انہیں سہولیات دی جائیں اور ساتھ ہی ان کے چارجز کو ایک حد میں لایا جائے ‘پرائیویٹ سیکٹر کا موثر کردار مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔