اعصاب شکن سیاسی سرگرمیاں اور عوامی مسائل

وطن عزیز میں آئینی ترامیم کے حوالے سے سیاسی سرگرمیوں میں گزشتہ دو روز کے دوران انتہائی تیزی دیکھی گئی‘سیاسی رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا‘سیاسی رہنماؤں کے بیانات اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں پل پل کی صورتحال سامنے آتی گئی‘ اسی گرما گرمی کے ماحول میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان بھی کیا گیا‘ اس حوالے سے جاری اعلامیے کے مطابق پٹرول10 اور ڈیزل13 روپے فی لٹر سستا کیا گیا‘اس طرح سے پٹرول کی  نئی قیمت249.10 روپے فی لٹر ہوگئی جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل249.69 روپے فی لٹر کاہوگیا‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے پہلے بینک دولت پاکستان نے ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال سے متعلق رپورٹ میں حوصلہ افزاء اعداد و شمار پیش کئے‘ بینک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 9.466 بلین ڈالر ہوگئے ہیں جبکہ ڈالر کی قدر میں کمی بھی ریکارڈ ہو رہی ہے‘ سیاست کی گرما گرمی ہو یا پھر معاشی اشاریوں میں بہتری‘زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو یا پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی کمی‘ ملک کا عام شہری اس ساری صورتحال میں ریلیف کے عملی احساس کا منتظر ہی رہتا ہے‘ یہ احساس صرف اس صورت ممکن ہے جب سرکاری مشینری پوری فعالیت کیساتھ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے‘یہ رول مشروط ہے نگرانی کے موثر اور محفوظ نظام کے ساتھ‘ اس حوالے سے یہ بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے  کہ  وطن عزیز میں درپیش اقتصادی صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر غریب عوام ہے‘ ہر قرضے کیلئے کہ جو حکومت اٹھاتی ہے دی جانے والی شرائط کی فہرست کا سارا لوڈ عوام پر ڈالا جاتا ہے‘ اس عرصے سے جاری سلسلے میں آج گرانی کمر توڑ حد تک پہنچ چکی ہے اقتصادی اشاریوں میں بہتری اور شرح سود میں کمی کیساتھ سرکاری سطح پر مرتب اعدادوشمار میں گرانی کی شرح کم ہونے کا ذکر موجود ضرور ہے تاہم برسرزمین حقائق کے مطابق اس شرح میں اضافہ تو ہوتا جارہا ہے کمی کہیں دکھائی نہیں دیتی اور ایسا صرف مارکیٹ کنٹرول کے انتظامات ناکافی ہونے کا نتیجہ ہے کہ جن میں مصنوعی مہنگائی ناجائز منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی اور انسانی صحت وزندگی کیلئے مستقل خطرہ بننے والی ملاوٹ کا دھندہ روز بروز بڑھتا چلا جارہاہے‘ حکومت کی جانب سے کسی بھی سیکٹر میں کوئی ٹیکس لگے یا پیداواری لاگت میں کوئی اضافہ ہو اس کا بوجھ فوراً عام صارف کو منتقل کر دیا جاتا ہے جبکہ اسکے برعکس اگر کوئی بھی مراعات یا سہولیات ملیں تو وہ صرف اورصرف سرمایہ دار تک اور ان کے اکاؤنٹس کا والیوم بڑھانے تک محدود رہتی ہیں کیا ہی بہتر ہو کہ مرکز اور صوبے درپیش صورتحال کے تناظر میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے سرکاری مشینری کے پورے آپریشن کو ری وزٹ کریں۔