مسائل کا حل اور تلخ حقائق

ملک کا سیاسی ماحول کس قدر گرما گرمی کا شکار ہے اور یہ سلسلہ کب تک اسی طرح چلے گا اس بحث میں پڑے بغیر ضرورت برسرزمین تلخ حقائق کی روشنی میں عملی اقدامات کی بھی ہے جس کا احساس وادراک ناگزیر ہے‘سیاست کا میدان عرصے سے تپ رہا ہے جبکہ دوسری جانب ملک کی اکانومی قرضوں کے انبار تلے دبتی چلی جارہی ہے‘ اس صورتحال کے اثرات عوام پر اذیت ناک صورت میں مرتب ہو رہے ہیں‘ دوسری جانب ملک میں مرکز اور صوبوں کی سطح پر یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتیں عوام کو ریلیف دینے کیلئے بڑے بڑے اعلانات کیساتھ تعمیر و ترقی کے میگاپراجیکٹس کا اعلان بھی کرتی ہیں اس سب کیلئے کم اور زیادہ کے فرق کیساتھ اقدامات اٹھائے بھی جاتے ہیں تاہم اعلانات اور ثمر آور عملی نتائج کے درمیان فاصلے نہ صرف موجود بلکہ وقت کیساتھ مزید بڑھتے بھی چلے جارہے ہیں‘ اس سب کے نتیجے میں ملک کا عام شہری روز بروز مشکلات کے گرداب میں پھنستا چلا جارہا ہے اس تلخ برسرزمین صورتحال کا تقاضہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بڑے بڑے اعلانات اور منصوبوں کیساتھ پہلے مرحلے میں عوام کو درپیش مسائل کی شدت کم کرنے کیلئے حکمت عملی ترتیب دیں اس مقصد کیلئے مہیا وسائل‘ انفراسٹرکچر اور افرادی قوت کا بہتر استعمال یقینی بنانا ضروری ہے اس کیلئے صرف چیک اینڈ بیلنس کا محفوظ نظام ناگزیر ہے جس کا مجموعی طور پر فقدان چلا آرہا ہے اس وقت جبکہ گرانی کا گراف پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہے اور عام شہری کیلئے اپنے گھر کاماہانہ خرچہ پورا کرنا بھی دشوار ہے مارکیٹ میں مصنوعی گرانی‘ ذخیرہ اندوزی اور مضر صحت ملاوٹ نے صورتحال کو مزید پریشان کن بنا دیا ہے‘ اس ضمن میں مارکیٹ کنٹرول کیلئے اقدامات اور عوام کو فوری ریلیف دینے کیلئے کسی بڑے بجٹ کی ضرورت نہیں‘چیک اینڈ بیلنس کے نمائشی نظام کی جگہ منڈی کنٹرول کیلئے ایسا نظام ترتیب دینا ضروری ہے کہ جس کی رسائی گلی محلے کی سطح پر بھی ہو‘ اس میں ماضی کے رائج سسٹم کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے اور ضرورت کے مطابق نیا نظام بھی وضع کیا جا سکتا ہے‘ دوسری جانب خدمات کے اواروں میں نئی تعمیرات اور بڑے بڑے منصوبوں کیساتھ ضروری ہے کہ موجودہ انفراسٹرکچر کے اندر افرادی قوت کو بہتر سروسز کی فراہمی کا پابند بنایا جا سکتا ہے بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی ہو یا ہسپتالوں میں علاج اور سکولوں میں معیاری تعلیم‘بجلی اور گیس کی سپلائی ہو یا پھر رہائشی و سفری سہولیات کے کیس‘ اس سب کیلئے پہلے مرحلے میں مہیا ریسورسز کے اندر کام ضروری ہے بعد میں بڑے منصوبوں کی جانب بڑھا جاسکتا ہے کیا ہی بہتر ہو کہ مرکز اور صوبے زمینی حقائق کی روشنی میں عوام کیلئے ریلیف یقینی بنائیں۔