وفاقی وزارت خزانہ نے رواں مالی سال کے پہلے6ماہ کے اخراجات و آمدن سے متعلق رپورٹ جاری کردی ہے‘ رپورٹ کے مندرجات میں شامل اعداد وشمار کے مطابق متعلقہ دفاتر انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ کی جانب سے عائد قرضے کے اجراء کیلئے بڑی شرائط پوری کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں‘ وزارت خزانہ کی جانب سے مہیا تفصیلات کو اگر مقررہ اہداف کے ساتھ دیکھا جائے تو پرائمری سرپلس میں ٹارگٹ2900ارب روپے کا تھا جبکہ حاصل3600 ارب روپے ہوئے اسی طرح صوبوں میں محصولات کا ہدف376 ارب تھا جبکہ وصول442 ارب روپے ہوئے دوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو کوپھر بھی اس سارے عرصے میں حسب سابق ریونیو میں 384 ارب روپے کا شارٹ فال بھی رہا‘ حکومت کی متعارف کرائی گئی تاجر دوست سکیم کیلئے بھی رکھے گئے ٹارگٹ تک نہ پہنچا جاسکا‘ قابل توجہ اور اصلاح احوال کی متقاضی بات یہ بھی ہے کہ صرف قرضوں پر سود کی مد میں 5 ہزار 141 ارب روپے خرچ ہوئے اس ساری صورتحال نے ملک میں مجموعی طور پر تعمیر و ترقی کے سفر کو بھی متاثر کیا‘ دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق وفاق کے ترقیاتی پروگرام کا حجم اتنی مدت میں 164 ارب روپے رہا‘ وطن عزیز کے طویل عرصے سے انتہائی تناؤ کشمکش اور محاذ آرائی کا شکار سیاسی منظرنامے کے ساتھ معیشت کو بھی سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنیوالی حکومتیں بھاری قرضے اٹھاتی چلی آرہی ہیں کسی دور میں قرضوں کا والیوم کچھ کم تو کسی میں بہت زیادہ بھی رہا ہے ہر نئے قرضے کے اجراء سے قبل قرض دینے والوں کی جانب سے شرائط اور مطالبات پر مشتمل بڑی فہرست بھی آجاتی ہے ان مطالبات پر بات چیت اور کچھ مزاحمت کے بعد ان کو منظور کرنا بھی مجبوری ہوتی ہے اس ساری صورتحال میں تسلیم ہونے والے مطالبات کا سارا لوڈ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے کسی بھی سیکٹر پر سوائے سیلری کے کوئی بھی نیا ٹیکس لگے کسی موجود ٹیکس کی شرح میں کوئی اضافہ ہو یا کسی بھی حوالے سے پیداواری لاگت بڑھے تو بوجھ صرف عام صارف کو اٹھانا پڑتا ہے ہر کوئی اپنے ٹیکس کالوڈ صارفین کو منتقل کردیتا ہے اس سارے منظرنامے میں اگر اصلاح احوال کیلئے کوششیں کی جاتی ہیں تو وہ ہر حوالے سے قابل اطمینان ہی ہوں گی بہتراور ضروری ہے کہ ان کوششوں کے ساتھ ہر ٹیکس کا بوجھ برداشت کرنے والے عام شہریوں کیلئے ریلیف یقینی بنایا جائے جو مرکز اور صوبوں کی سطح پر ہو۔
