نگرانی کا انتظام اور ترجیحات

حکومت مرکز میں ہو یا کسی بھی صوبے میں اس کے اقدامات اور اعلانات اسی صورت ثمر آور قرار پاتے ہیں جب ان کے نتیجے میں مطلوبہ اہداف حاصل ہو پائیں جب تک کسی بھی سیٹ اپ میں عملی اور ثمر آور نتائج یقینی نہیں ہوتے اس وقت تک ہر ایکسرسائز  محض کاغذی کاروائیوں تک محدود رہتی ہے ان سطور کی اشاعت تک رمضان المبارک کے پہلے عشرے کا آخری یعنی دسواں روزہ ہوگا جبکہ رمضان المبارک میں مارکیٹ کنٹرول کیلئے مرکز اور صوبوں کی سطح پر درجنوں اقدامات کے باوجود اکثر مقامات پر مصنوعی گرانی اور ملاوٹ سے متعلق شکایات کا انبار موجود ہے‘ یہ شکایات حکومتی سطح کے اعلانات اور ان کے برسرزمین نتائج کے درمیان فاصلوں کی نشاندہی کرتی ہیں یہی حال متعدد دیگر سیکٹرز میں بھی ہے تمام تر بڑے بڑے اعلانات کے باوجود میونسپل سروسز کی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہوتی چلی جارہی ہے خیبرپختونخواکے دارالحکومت میں حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر اس سقم کی نشاندہی کی ہے کہ جو نگرانی کے موثر نظام کے حوالے سے چلا آرہا ہے‘ ہیلتھ  کارڈ جیسے میگا پراجیکٹ کے باوجود سرکاری علاج گاہوں سے متعلق شکایات کا سلسلہ جاری رہتا ہے یہی صورتحال ایجوکیشن جیسے اہم شعبے کی بھی ہے بجلی اور گیس جیسے سروسز کے بڑے سیکٹرز میں بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے والے صارفین کو لوڈشیڈنگ کی اذیت کیساتھ کنکشن کے حصول سے لیکر بلوں کی ادائیگی تک کے مراحل میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے ذمہ دار دفاتر کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ جب تک حکومتی وژن کے مطابق اعلانات و اقدامات پر عملدرآمد کیلئے موثر نظام آپریشنل نہ ہو اس وقت تک سب کچھ کاغذی کاروائی تک محدود رہے گا۔
پشاور کی سڑکیں؟
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت میں ٹریفک کا مسئلہ اپنی جگہ جوں کا توں ہے بلکہ اس کی شدت میں اضافہ بھی ہوتا چلا جارہا ہے اصلاح احوال کے اقدامات مرکزی شارع اور چند دیگر سڑکوں تک ہی اکثر محدود رہتے ہیں اندرون شہر صورتحال روز بروز پریشان کن ہوتی چلی جارہی ہے‘ اس ضمن میں میگاپراجیکٹس کی باتوں کیساتھ ضروری ہے کہ مختصر المدتی حکمت عملی میں اندرون شہر کیلئے ٹریفک پلان اس طرح سے ترتیب دیا جائے کہ جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شریک کیا جائے ٹریفک نظام میں بہتری صرف پولیس کا کام نہیں اس کیلئے مختلف اداروں نے کردار ادا کرنا ہوتا ہے جن سب کا ایک جگہ اکٹھے ہو کر حکمت عملی ترتیب دینا ضروری ہے۔