عوامی نظام

 سرونسٹن چرچل نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ بے شک یہ بات کہی جارہی ہے کہ جمہوریت ایک بدترین قسم کا نظام ہے پر یہ ان کئی نظاموں سے برا بھی نہیں کہ جو مختلف ادوار میں اپنائے اور آزمائے گئے‘ سابق برطانوی وزیراعظم کے اس جملے میں گہرائی بھی تھی اور حکمت بھی‘ آپ کو کئی افراد اےسے بھی ملیں گے جو صدارتی نظام حکومت کے داعی ہیں اور ان کا موقف ہے کہ صدارتی نظام حکومت میں ایک صدر جتنی پھرتی اور مستعدی سے عوامی مسائل بیک جنبش قلم حل کرسکتا ہے اتنی تیزی سے ایک وزیراعظم ڈےلیور نہیں کرسکتا کہ اس کے راستے میں کئی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں‘ یہ دلیل اپنی جگہ کافی وزنی ہے پھر کیا اس کےلئے یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی بھی صدر ہو وہ غریب پرور ہو‘ اخلاقی اور مالی طور پر دیانت دار ہو قوانےن کی پابندی کرنے کا عادی ہو‘ تعصب سے پاک ہو‘ وہ ملک میں کسی بھی طبقے کو کسی دوسرے طبقے کے معاشی استحصال کی اجازت نہ دے‘ اس قسم کا حکمران قوموں کو قسمت سے نصیب ہوتا ہے کہ جس کے پاس اختیارات تو بے حساب ہوں پر وہ ان کا ناجائزاستعمال نہ کرے‘ خدشہ ےہ ہوتاہے کہ اگر تمام اختےارات فرد واحدکے ہاتھوں میں منتقل کردیئے گئے ہوں اور کوئی ہٹلر‘ سٹالن‘ مسولینی وغیرہ جیسا حاکم برسراقتدار آجائے تو وہ تو پھر اپنے ملک کا بھی اور دیگر ممالک کا حشر نشر کرسکتا ہے‘یہی وجہ ہے کہ سیانوں نے ہمیشہ اس بات کا پرچار کیا ہے کہ شخصیت پرستی اچھی شے نہیں ہوتی‘ریاستی اداروں کا مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے وہ اتنے مضبوط ہوں کہ شخصیات کے آنے جانے سے ملک کا نظام درہم برہم نہ ہو وہ قائم رہے اگر آپ دنیا پر ایک طائرانہ نظر ڈالےں تو آپ جان جائیں گے کہ وہ ممالک بھی سکھی ہیں اور ان کے عوام بھی کہ جہاں ریاستی ادارے اتنے قوی بنا دیئے گئے ہیں کہ ان میں شخصیات اتنی اہمیت کے حامل نہیں ہوتے کہ جس طرح وطن عزیز میں ہوتے ہیں کہ جہاں سیاست کا محور ہی شخصیت پرستی ہے‘ جو جمہوری نظام اپنے ہاں رائج ہے وہ نہ تیتر ہے اور نہ بٹیر‘ وہ بظاہر تو جمہوری کہلاتا ہے پر ہے ۔

دراصل بادشاہت‘سیاسی پارٹی کے اندر بھی بادشاہی نظام ہے اور جب کوئی سیاسی پارٹی برسراقتدار آئے تو وہ حکومت بھی شاہانہ انداز سے چلاتی ہے‘ پارلیمنٹ کا دم تو یہ لوگ بہت بھرتے ہیں پر عملاً پارلیمنٹ کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں‘ سرونسٹن چرچل کے جس جملے کا ہم نے اس کالم کے ابتداءمیں حوالہ دیا ہے اس کے بین السطور چرچل کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جو جمہوری نظام ان کے ہاں لاگو ہے وہ بھی کوئی سو فیصد آئیڈےل نظام نہیں پر تاوقتیکہ اس سے بہتر کوئی دوسرا نظام دریافت نہیں ہوجاتا اسی پر عملدرآمد کرنا ضروری ہے‘ آج کی دنیا بھی کوئی بھی نظام جامد نہیں رہ سکتا اس میں وقت اور حالات کے مطابق ردوبدل اور ترمیم ضروری ہوجاتی ہے ‘بات یہ دلیل دے کر ختم نہیں کی جا سکتی کہ بس 1973ءکا آئین مقدس ہے اور اس میں کسی بھی ردوبدل کی گنجائش نہیں۔ آئین انسان ہی تو بناتے ہیں اور کیا انسان خطا کا پتلا نہیں کہ اس سے کوئی لغزش سرزد نہ ہو۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو باریک بینی سے غور کرنا چاہئے کہ کیا حکمرانوں نے 1973ءکے آئےن کو سیاہ وسباق کےساتھ پڑھا ہے؟ کیا عوام الناس کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کو پہنچانے کی جو ذمہ داری اس میں حکمرانوں پر عائد کی گئی ہے انہیں کسی حکومت نے واقعی پورا کیا ہے؟ اور اگر ذمہ داری پوری نہیں کی تو اس کی وجہ کیا تھی؟ اور کیا اب زمینی حقائق کے مدنظر کسی نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ ان باتوں پر کھلے ذہن کےساتھ ملک میں بحث و مباحث کا ایک سلسلہ شروع ہونا چاہئے۔